ہوئے ہیں، اور ان کی قوم کے لوگ ان کے اسلام کے بارے میں نہیں جانتے، اور وہ کوئی ایسا کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے لینا چاہیں۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہودِ بنی قریظہ اور مشرکینِ مکہ وغطفان کے درمیان اختلاف ڈالنے کی ذمہ داری سونپی، اس لیے کہ جنگ نام ہے دھوکا دہی کا، نعیم فوراً بنو قریظہ کے پاس گئے، جن کے وہ دورِ جاہلیت میں حلیف تھے، اور کہا کہ تم لوگ اپنے آپ سے میری محبت اور میرے اور تمہارے درمیان خوشگوار تعلقات کو خوب جانتے ہو، انہوں نے کہا: تم سچ کہتے ہو، نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریش تمہارے جیسے نہیں، یہ شہر تمہارا شہر ہے، یہاں تمہارے اموال، تمہاری اولاد اور تمہاری عورتیں رہتی ہیں، تم یہاں سے کسی دوسری جگہ نہیں جاسکتے۔ قریش وغطفان کے لوگ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ا س کے اصحاب سے جنگ کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں، اور تم نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف ان کی مدد کرنے کا وعدہ کردیا ہے، ان کا شہر اور ان کے اموال اور ان کی عورتیں یہاں نہیں ہیں، اس لیے وہ تمہاری طرح نہیں ہیں، اگر انہیں کوئی فائدہ نظر آیا تو اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، اور اگر کوئی نقصان والی بات انہیں نظر آئی تو وہ اپنے اپنے شہروں اور بستیوں میں چلے جائیں گے، اور تم لوگوں کو تنہا اس آدمی (یعنی محمد) کے ساتھ نمٹنے کے لیے چھوڑ دیں گے، اور تم لوگ تنہا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے نمٹنے کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے ان کے ساتھ مل کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف جنگ نہ کرو، یہاں تک کہ تم ان کے بعض سرداروں کو اپنے پاس رہن کے طور پر رکھو، اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ وہ تمہارے ساتھ مل کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے فیصلہ کن جنگ کریں گے، اور تم لوگ ایک نتیجہ پر پہنچ جاؤگے۔اس کے بعد نعیم رضی اللہ عنہ قریش کے پاس گئے اور ان سے کہا: تم لوگ اپنے آپ سے میری دوستی اور اپنے لیے میری خیر خواہی کا خوب علم رکھتے ہو، انہوں نے کہا: ہاں، نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا: یہود محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ بدعہدی پر سخت نادم ہیں، اور محمد کو اپنے کیے پر نادم ہونے کی خبر بھیج دی ہے، اور انہوں نے یہ بات طے کی ہے کہ وہ تم سے تمہارے کچھ لوگوں کو رہن کے طور پر لے کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حوالے کردیں گے، پھر تمہارے خلاف اس کے ساتھ مل جائیں گے، اس لیے اگر وہ تم سے رہن مانگیں تو انہیں نہ دو۔
پھر نعیم غطفان کے پاس گئے اور ان سے بھی ایسی ہی بات کہی، چنانچہ شوال سن 5 ہجری سنیچر کی رات میں کفارِ مکہ نے یہود کو خبر بھیجی کہ ہم لوگ اپنے شہر میں نہیں ہیں، اور ہمارا مال ومتاع اور ہمارے جانور ہلاک ہوگئے، اس لیے اب بغیر کسی تاخیر کے ہمارے ساتھ اُٹھ کھڑے ہو، تاکہ ہم ایک ساتھ مل کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ کریں، تو یہود نے انہیں خبر بھیج دی کہ آج سنیچر کادن ہے اور ہم سنیچر کے دن جنگ نہیں کرسکتے، دوسری بات یہ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ مل کر اس وقت تک جنگ نہیں کریں گے جب تک ہمارے پاس اپنے کچھ لوگوں کو رہن کے طور پر نہ بھیج دو، جب ان کا قاصد یہ خبر لے کر قریشیوں اور قبیلۂ غطفان کے پا س پہنچا، تو انہوں نے کہا: نعیم نے سچ کہا تھا، اور یہود کو خبر بھیج دی کہ ہم تمہارے پاس اپنا کوئی آدمی نہیں بھیجیں گے، تم لوگ جلد از جلد محمد سے جنگ کرنے کے لیے ہمارے ساتھ نکلو، قریظہ نے کہا: نعیم نے سچ کہا تھا۔ اس طرح دونوں جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا، ان کے ارادے پست ہوگئے اور متحد ہو کر مسلمانوں سے جنگ کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ [1]
|