Maktaba Wahhabi

551 - 704
جو صلح حدیبیہ میں شریک نہیں ہوئے تھے، اس طرح عورتوں اور بچوں کے علاوہ اُن کی تعداد دو ہزار ہوگئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ سال کے قریشیوں کے ساتھ معاہدئہ صلح کے مطابق عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ کا قصد کیا، اور مدینہ میں اپنا خلیفہ ابو رُہم غفاری رضی اللہ عنہ کو مقرر کر دیا۔ ایک دوسرے قول کے مطابق ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو، اور تیسرے قول کے مطابق عویف بن اَضبط سلمی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ ساٹھ اونٹ لے گئے، اور ان کا نگراں ناجیہ بن جُندب اسلمی رضی اللہ عنہ کو بنا دیا، جو ان کو ہانکتے اور ان کے چرنے کے لیے درختوں کی تلاش کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ ہتھیار، زِرہیں، تلوار اور نیزے وغیرہ بھی لے لیے، اور سو گھوڑے بھی ساتھ لے گئے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے ساتھ ہتھیار بھی لے جا رہے ہیں حالانکہ انہوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ ہم اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہیں لیں گے، سوائے اس ہتھیار کے جو ایک مسافر کے پاس ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم انہیں لے کر حرم میں داخل نہیں ہوں گے۔ اگر راہ میں کافروں کی کوئی جماعت ہمارے خلاف اُٹھے گی تو ہمارے ہتھیار ہمارے قریب ہوں گے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطنِ یأجج پہنچے تو وہاں سارا اَسلحہ چھوڑ دیا اور اَوس بن خولی انصاری رضی اللہ عنہ کو دو سو مجاہدین کے ساتھ اسی مقام پر رہنے دیا، اور مسافر کے ہتھیار کے ساتھ حدودِ حرم میں داخل ہوئے۔ جب قریشیوں کو خبر ملی تو وہ مکہ سے نکل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر چلے گئے اور کہنے لگے کہ ہم نہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھیں گے اور نہ اس کے ساتھیوں کو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہدی کے جانور مقام ذی طُویٰ میں ہی روک دیے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوکر صحابہ کرام کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ اُس وقت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کی اونٹنی کی باگ ڈور پکڑے ہوئے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اَسود کے پاس پہنچے تو اپنی چھڑی کے ذریعہ اسے چُھوا درآنحالیکہ آپ اپنی سواری پر سوار تھے اور اپنی چادر کو دائیں بغل سے گزار کر اس کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ بعض مشرکین مقامِ قُعیعان میں بیٹھ کر مسلمانوں کو طواف کرتے دیکھتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دورانِ طواف جھٹک کر چلنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین دیکھیں کہ مسلمانوں میں قوت ہے، اس لیے کہ مہاجرین کے بارے میں مشرکینِ مکہ کہا کرتے تھے کہ یثرب کے بُخار نے اُن کو توڑ دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دوڑ لگائی اور صحابہ نے بھی لگائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکن یمانی کے پاس پہنچے، اور قریشیوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے عام رفتار اختیار کر لی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اَسودکا استلام کیا، اسی طرح آپؐ نے تین چکر لگائے۔ اب یہ فعل مسلمانوں کے لیے آپؐ کی سنت بن گیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعی کے دوران اپنی سواری پر تھے، اور ہدی کے جانوروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ کے پاس ٹھہرا رکھا تھا، اور فرمایا: یہ ذبح کرنے کی جگہ ہے، اور مکہ کی تمام گلیاں اور راستے قربانی کی جگہیں ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ کے پاس ہدی کا جانور ذبح کیا اور سر کے بال منڈوائے، اور مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمرہ پورا کرا دیا جس کا ذکر سورہ الفتح کی آیت( 27) میں یوں آیا ہے:
Flag Counter