کے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ میرے باپ نے مجھے میری سات بہنوں کا ذمہ دار بنادیا اور کہا: اے بیٹے! مناسب نہیں کہ ہم دونوں ان عورتوں کو اس حال میں چھوڑدیں کہ ان کے ساتھ کوئی مرد نہ رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرنے میں میں تمہیں اپنے آپ پر ترجیح نہیں دے سکتا ہوں، اس لیے تم اپنی بہنوں کی حفاظت کے لیے ان کے ساتھ رہو۔چنانچہ میں غزوۂ احد میں ان کے ساتھ رہ گیا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان کو اپنے ساتھ کفارِ قریش کا پیچھا کرنے کے لیے نکلنے کی اجازت دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ہزار زخموں اور تکلیفوں کے باوجود دشمن کا پیچھا کرنے کا علی الإعلان حکم دے دیا، تاکہ تمام کفار اس بات کو سن لیں، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ چلنا چاہتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حکم کی تعمیل میں تمام مخلص مجاہدین اپنے رستے ہوئے زخموں کے ساتھ نکل پڑے، جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان فرمایاہے:
((الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ))
[آلِ عمران: 172]
’’ جن لوگوں نے کاری زخم لگنے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی، ان میں سے جن لوگوں نے اچھے کام کیے اور تقویٰ کی راہ اختیار کی، ان کے لیے اجرعظیم ہے۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ اُحد کا ہی علَمِ جہاد منگایا جو اب تک کھولا نہیں گیا تھا، اوراسے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا، اورایک روایت کے مطابق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدینِ اسلام کے ساتھ نکل پڑے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی تھا، پیشانی پر شدید چوٹ آئی تھی، اگلے چار دانت ٹوٹ گئے تھے، نچلا ہونٹ اندر سے زخمی تھا، دایاں کندھا ابن قمئہ کی ضرب سے کمزور ہوا پڑا تھا اور دونوں گھٹنے پتھروں کی رگڑ سے شدید زخمی تھے۔ عوالی میں رہنے والے مسلمان بھی جمع ہوگئے اور آواز سنتے ہی اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوارہوئے، اور تمام مجاہدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل پڑے، آپ نے مدینہ میں اپنا نائب ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو بنادیا۔
قرآنِ کریم نے صحابہ کرام کے پوری تیزی کے ساتھ نکلنے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے:
((الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ))
[آلِ عمران: 172]
’’ جن لوگوں نے کاری زخم لگنے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی، ان میں سے جن لوگوں نے اچھے کام کیے اور تقویٰ کی راہ اختیار کی، ان کے لیے اجرعظیم ہے۔ ‘‘
عائشہ رضی اللہ عنہما نے عروہ رحمہ اللہ سے کہا، تمہارے باپ(زبیر رضی اللہ عنہ ) ان مجاہدین میں سے تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی۔احد کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں پر بھاری مصیبت نازل ہوئی، تو مشرکوں کے لوٹ جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
|