Maktaba Wahhabi

124 - 704
ہے پیدا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے (اپنی رسالت کے لیے ) چُن لیتا ہے۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بلدِ حرام کو اپنے نبی کے وطن اور ایک مقدس مقام کی حیثیت سے چُن لیا، تاکہ دنیا کے گوشے گوشے سے اس کے بندے وہاں حج کے لیے آئیں۔ [1] نیز کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں اس شہر کی دو جگہ قسم کھائی ہے: فرمایا: ((وَهَـٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ)) [التین :3] ’’اور قسم ہے اس امن والے شہر کی۔‘‘ اور فرمایا: ((لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ)) [البلد:1] ’’میں اِس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘ ،اوریہی وہ شہر ہے جہاں آنے اور اس میں موجود بیتِ حرام کے طواف کو اللہ تعالیٰ نے ہر صاحبِ قدرت پر واجب قرار دیا ہے۔ یہ اللہ کا سب سے بہترین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے محبوب شہر ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے سیّدنا عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ذریعے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں واقع حزورہ مقام پر اپنی سواری پر کھڑے ہوکر یہ کہتے ہوئے سنا:’’اللہ کی قسم، اے مکہ! تم اللہ کی سب سے بہترین زمین ہو، اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ہو، اگر مجھے تم سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘ [2] ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے وقت جمرۃ العقبہ کے پاس کھڑے ہوکر کہا: ’’اللہ کی قسم! اے مکہ! تو اللہ کی سب سے بہترین سرزمین ہو، اور میرے نزدیک اللہ کی سب سے محبوب سرزمین ہو، اور اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔یہ سرزمین مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں کی گئی، اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال کی جائے گی، اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک ساعت کے لیے حلال کی گئی، پھر یہ حرام ہوگئی۔ اس کے درخت کو نہیں کاٹا جائے گا، اور اس کی گھاس کو نہیں اکھاڑا جائے گا، اور اس کی کوئی گم شدہ چیز نہیں اٹھائی جائے گی، سوائے اس آدمی کے جو اس کے مالک کی تلاش کی نیت سے اٹھائے ۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اذخر گھاس کو مستثنیٰ کردیجیے، اس لیے کہ وہ ہمارے گھروں کے بنانے اور ہماری قبروں میں رکھے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا، اذخر نامی گھاس کے علاوہ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی عظمت کے بیان میں فرمایاہے: ’’جو شخص مکہ کی گرمی کو ایک ساعت کے لیے برداشت کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے جہنم کو سو سال کی مسافت تک دور کردے گا، اور دو سو سال کی مسافت کے برابر جنت کو اس سے قریب کردے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے سبب دورِ جاہلیت میں عربوں کے دلوں میں اور اسلام کے بعد سارے عرب وعجم کے مسلمانوں کے دلوں میں مکہ کا ایک بہت بڑا مقام بنادیا ہے۔ اسلام آنے کے بعد ہر دور میں اہلِ زمین کی گردنیں اس کے لیے جھکتی رہیں۔ چنانچہ بڑے بڑے شاہانِ دنیا اور رؤسائے قوم مکہ آکر حرم میں نماز پڑھتے ہیں ،اور خانۂ کعبہ کے گرد عام مسلمانوں کے ساتھ مل کر برابر کی حیثیت میں طواف کرتے ہیں ۔ اور اُن سب کے سر اُس وقت صرف رب ذو الجلال کے لیے جھکے ہوتے ہیں ۔
Flag Counter