طلوعِ آفتاب کے وقت چڑھ گیا۔ اُس وقت قریش والے کعبہ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے، اور بلندآواز میں لوگوں کو پکارنے لگا، تاکہ وہ اس کا حق دلانے میں اس کی مدد کریں۔ چنانچہ ہاشم، زہرہ، امیّہ ، مخزوم اور تیم بن مرّہ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے ،اور آپس میں اللہ کے نام پر ایک عہد نامے پر متفق ہوئے کہ وہ سب ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کے لیے ایک ہوں گے، تاکہ اسے اس کا حق دلایا جائے ۔
یہ ابن جدعان ایک کریم النفس آدمی تھا جوبھوکوں کو کھانا کھلاتا تھا، اور مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، اور امّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے رشتہ داروں میں سے تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میںپوچھا کہ کیا قیامت کے دن اس کا یہ جود وکرم اس کے لیے نفع بخش ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا کہ میرے رب، قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف کردے۔ اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصحیح میں روایت کیا ہے۔
قریش نے اس عہد نامے کا نام حِلْفُ الفضول یعنی عہد نامۂ کارہائے خیر رکھا۔ عربوں کی تاریخ میں یہ سب سے پاکیزہ مقاصد والا عہد نامہ گزرا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شرکت کی تھی، اور اِس سے بہت زیادہ خوش ہوئے تھے۔ ابن اسحاق نے طلحہ بن عبداللہ بن عوف زہری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اِس عہد نامہ کے وقت موجود تھا، اور یہ میرے نزدیک سُرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی اور محبوب تھا۔ اگر مجھے عہدِ اسلام میں بھی ایسے عہد نامے کی دعوت دی جاتی تو اسے فوراً قبول کرلیتا۔ [1]
اِسی کانام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حِلْفُ الْمطیَّبین (اچھے لوگوں کا عہد نامہ) رکھا۔ اُس حِلْفُ الْمطیَّبین کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے جس پر قُصی کی موت کے بعد بنی عبدمناف والوں نے اتفاق کیا تھا، تاکہ بنی عبدالدار سے زائرینِ حرم کو پانی پلانے، اُن کی میزبانی کرنے ، عَلَم برداری، دارالندوہ اور بابِ کعبہ کی نگرانی جیسے اپنے چھینے ہوئے حقوق کو واپس لے سکیں۔ بیہقی نے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے چچا زاد لوگوں کے ساتھ اس عہد نامے کے وقت موجود تھا، اورمیں اسے ہرگز پسند نہیں کروں گا کہ سُرخ اونٹوں کے بدلے اس کی خلاف ورزی کروں۔ [2]
بیہقی نے سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس عہد نامہ کے علاوہ قریش کے کسی عہد نامے میں شریک نہیں ہوا، اور میں اسے ہرگز پسند نہیں کروں گا کہ سُرخ اونٹوں کے بدلے اسے توڑ دوں ۔[3] اور بیہقی نے جوحدیثیں روایت کی ہیں وہ صحیح ہیں، اس لیے ہمارے لیے یہ کہنے کے سوا چارہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حِلْفُ الْمطیَّبین سے حِلْف الفضول مراد لی تھی۔ اور اس عہد نامہ کے سبب خوشی کی جو چمک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات سے ظاہر ہوتی ہے، وہی
|