Maktaba Wahhabi

253 - 704
سیر کے لیے روانہ ہوگئے، پھر اسی رات کی صبح مکہ واپس آگئے، درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ سے ہر تکلیف اورہر حزن وملال زائل ہوگیا تھا اور پہلے سے کہیں زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون واطمینان حاصل ہوچکا تھا۔ ان نتائج ونصائح کے آخرمیں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ واقعۂ معراج عقبہ کی پہلی بیعت کے بعد ہوا تھا، جب اسلام عرب قبائل میں مشہور ہوگیا تھا، اور مدینہ کے ہر گھر میں داخل ہوگیا تھا، اور فضا میں ایسی علامتیں ظاہر ہونے لگی تھیں کہ اب عنقریب ہی اسلام کا مرکز مکہ سے مدینہ منتقل ہوجائے گا۔ اور انصارِ مدینہ کو مکی سوسائٹی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم وزیادتی کی خبریں غایت درجہ تکلیف پہنچارہی تھیں۔ وہ آپس میں باتیں کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کب تک مشرکینِ قریش کے ذریعہ مکہ کے پہاڑوں میں بھگائے اور دوڑائے جائیں گے، اور انہیں آئندہ موسمِ حج کا شدید انتظار تھا ، تاکہ مکہ پہنچ کر آپ سے ملاقات کریں، دل دہی کریں ، اطمینان دلائیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد وپیمان کریں کہ وہ تمام مشرکینِ عرب سے آپ کی حفاظت وحمایت کریں گے، اور اس دین کا دفاع کریں گے ، جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے مبعوث ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بات کا یقین دلائیں کہ وہ اپنی جانوں ، اپنے مال اور ہر ممکن ذرائع ووسائل کو آپ کی خاطر لگانے کے لیے تیار ہیں ۔ معراجِ نبوی کا یہ عظیم واقعہ اللہ کی جانب سے اعلان تھا کہ دعوتِ اسلامیہ کا ایک دور عنقریب ختم ہونے والا ہے جس میں اسلام کمزور اور مظلوم تھا، اور ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مبارک دعوت کو پے درپے کامیابیاں ملیں گی، اور ان سب میں اہم کامیابی یہ کہ اب دعوتِ اسلامیہ مکہ سے باہر نکلنا ہی چاہتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آسمانی سفر اللہ تعالیٰ سے آپ کا قربِ شدید اور مسجدِ اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی طرف جاتے ہوئے اور مکہ لوٹتے ہوئے آپ کا اللہ کی بہت سی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ، مسجدِ اقصیٰ میں انبیائے کرام کی امامت کرانی، یہ ساری باتیں اس بات کا بیّن ثبوت تھیں کہ یہ دین عنقریب تمام اَدیان پر غالب آجائے گا، اور سارے عالم میں پھیل جائے گا۔ اسی لیے جب ہم سورۃ الإسراء کی تلاوت کرتے ہیں ، تو صرف پہلی آیت میں واقعۂ معراج کا ذکر پاتے ہیں، اس کے بعد مسلسل یہود کی فضیحتوں اور ان کی بداعمالیوں کا بیان ہے ۔ اس اسلوب میں اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ یہودِ مدینہ بھی مشرکینِ عرب کی طرح مخاطب ہیں ، اور یہ کہ اب نصرانیوں اور یہودیوں کا دور دینی اور روحانی قیادت کے میدان میں ختم ہوچکا، اور یہ کہ شرک باللہ کا عنقریب جزیرۂ عرب سے خاتمہ ہوجائے گا، اور اب اس جزیرہ میں دینِ اسلام کے سوا کسی مذہب وفکر کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، اور یہ کہ یہ دین بڑی تیزی کے ساتھ عالمِ عرب سے نکل کر سارے عالم میں پھیل جائے گا، اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی کچھ ہوا، جیساکہ ہمیں عنقریب دعوتِ اسلامیہ کی تاریخ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو بیان کرتے ہوئے معلوم ہوگا۔ وباللہ التوفیق۔ ****
Flag Counter