Maktaba Wahhabi

419 - 704
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دس صحابہ کرام کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے گھر واپس آگئے اور مسلمانوں نے صبح تک ان کا محاصرہ کیے رکھا، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں اذان دی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان دسوں صحابہ کے ساتھ بنی خطمہ کے میدانی علاقے میں فجر کی نماز ادا کی، اُن دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنادیا تھا۔ بنونضیر کی مدد کے لیے کوئی بھی آگے نہیں آیا، نہ ابن اُبی اور نہ ان کا کوئی حلیف، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے کھجوروں کے باغات کاٹے اور جلائے جانے لگے، تو حُیَيْ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم سے تم جو چاہتے ہو اس کے لیے تیار ہیں، اور ہم تمہارے شہر سے نکل جائیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ یہاں سے نکل جاؤ، اور تم اپنے ساتھ ہتھیاروں کے علاوہ اتنا مال واسباب لے جاسکتے ہو جو اونٹوں پر لادسکتے ہو۔ انہوں نے آپ کی یہ شرط منظور کرلی، ان میں سے دو آدمی یا مین بن عمیر اورابوسعد بن وہب مسلمان ہوگئے اور اپنا خون اور اپنا مال بچالیا، اور قبیلۂ قیس کے ایک آدمی نے اپنے چچا زاد بھائی ابن یامین کے تعاون سے اس عمرو بن جحاش کو قتل کر دیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردینے کا ارادہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی خوشی ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ دن تک ان کا محاصرہ کیا، پھر انہیں مدینہ سے جلاوطن کردیا، اور محاصرہ کے دنوں میں یہود اپنے گھروں کو خراب کرتے رہے، اور مسلمان ان علاقوںکو اللہ کے حکم سے خراب کرتے رہے اور جلاتے رہے جوان کے پاس تھے، یہاں تک کہ صلح کی بات طے ہوگئی، اور یہود نے اپنی عورتوں، بچوں، گھر کی لکڑیوں اور دروازوں کو چھ سو اونٹوں پر لاد لیا، اور ان کے سرداران حُیَيْ بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق پیدل خیبر کی طرف روانہ ہوگئے، اور ان کی ایک جماعت شام کی طرف چلی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال و اسباب، ہتھیاروں، اراضی اور ان کے گھروں پر قبضہ کرلیا، ان کے گھروں سے پچاس زرہیں، پچاس خود اور تین سو چالیس تلواریں نکلیں، اور بنو نضیر کا مال واسباب، ان کی زمین اور ان کے گھر خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہوگئے، آپؐ اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرتے تھے انہیں پانچ حصوں میں تقسیم نہیں کیا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مال واسباب اپنے نبی کو بغیر کسی جنگ وقتال کے عطا کیا تھا۔ کھجور کے درختوں کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو کی اچھی خاصی کھیتی کی جاتی تھی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بنی عبدالمطلب کا ایک سال کا خرچ پورا ہوجاتا، اور جو بچ جاتا تھا اسے اسلامی فوج کے گھوڑوں اور ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کیا جاتاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے ان اموال پر اپنے آزاد کردہ غلام ابو رافع کو متعین کررکھا تھا جو سات باغات پر مشتمل تھے، ان اموال سے اور باغ مخیریق کے اموال سے آپؐ غریب مسلمانوں کو صدقات دیا کرتے تھے، انہی باغات میں سے ایک میں آپ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی ماں (ماریہ قبطیہ) رضی اللہ عنہماقیام پذیر تھیں، جن کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ معمول آیا کرتے تھے۔ مہاجرین اس وقت تک انصار کے گھروں میں رہا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور ان سے مہاجرین کے ساتھ ان کے بہترین برتاؤ اور اپنے آپ پر انہیں ترجیح دینے کا ذکر ِ خیر کرکے فرمایا: اگر تم لوگ چاہو تو تمہارے اور
Flag Counter