سینے میں مارا، جس کی تاب نہ لاکر وہ گرگیا، پھر کہنے لگا: اے عمارہ! تم نے مجھے زخمی کردیا، تو عمارہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تجھے دور کرے اے منافق! اللہ نے تمہارے لیے جو عذاب تیار کررکھا ہے وہ اِس سے زیادہ شدید ہے، آج سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے قریب بھی نہ آنا۔ اور ابو محمد مسعود بن اوس نجاری رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی تھے، قیس بن عمرو بن سہل کے پاس گئے جو ایک جوان آدمی تھا، اور منافقوں میں اس کے سوا کوئی جوان نہیں تھا، پھر اس کی گردن پکڑ کر دھکا دینے لگے، یہاں تک کہ اسے مسجد سے نکال دیا۔ اور بنو خُدرہ کے ایک صحابی حارث بن عمرو نامی ایک منافق کے پاس پہنچے، جس کے سر کے بال لمبے تھے، انہوں نے اُسے سر کے بالوں سے پکڑلیا اور سختی کے ساتھ گھسیٹتے ہوئے باہر کردیا، تو منافق کہنے لگا: اے ابوالحارث! آپ نے میرے ساتھ بہت سخت برتاؤ کیا ہے، تو انہوں نے کہا: تم اسی کے حق دار ہو، اے اللہ کے دشمن! اس آیت کے سبب جو تمہارے بارے میں نازل ہوئی ہے، آج سے تم مسجدِ رسول کے قریب نہ آنا، اس لیے کہ تم ناپاک ہو۔ اوربنی عمر و بن عوف کے ایک صحابی اپنے بھائی زُوَیّ بن حارث کے پاس گئے اور اسے سختی کے ساتھ پکڑ کر باہر کردیا، اور اس کے نفاق پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: تم پر شیطان کا غلبہ ہوگیا ہے۔
اِن تفاصیل سے اُن مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے جن کا دعوتِ اسلامیہ کو مدنی سوسائٹی میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے کہ خفیہ عداوت کی خطرناکی کھلی عداوت کی خطرناکی سے زیادہ سخت اور نقصان دہ ہوتی ہے۔ مکی سوسائٹی کے دشمنانِ اسلام جانے پہچانے لوگ تھے، اور وہ کبر و غرور کے ساتھ معاملہ کرتے تھے، اس لیے عام حالات میں مسلمانوں کے خلاف ان کی کارروائیوں کا علم ہوتا رہتا تھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ممکن حد تک احتیاط کرلیا کرتے تھے، اگرچہ ان کے ظلم واستکبار کا معاملہ بہت ہی سخت ہوتا تھا، جیسا کہ ہم نے جان لیا ہے۔
مدنی سوسائٹی کے دشمنانِ اسلام ظاہر میں اپنے آپ کو اسلام کا وفادار بتاتے تھے اور ان کے دل میں اس کے خلاف عداوت اور بغض ونفرت کی آگ بھڑکتی رہتی تھی، جس کا پہلا ضرر رساں نتیجہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام عام حالات میں ان سے دھوکا کھاجاتے تھے۔ اور ملعون یہود رات دن مدنی سوسائٹی میں اس لا علاج مرض کے پھیلانے میں لگے رہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی خفیہ سازشوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے،بلکہ مشرکینِ عرب کے درمیان ہمیشہ کوشاں رہتے تھے کہ وہ ان ہی کی طرح منافق بن جائیں۔ بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین ِ اسلام کے لیے اپنی طاعت گزاری کا اعلان کرتے تھے، تاکہ اس سوسائٹی میں اچھوت بن کر نہ رہ جائیں اور دل میں عداوت چھپائے رہتے تھے، اور کبھی یہود کے ساتھ مل کر اور اکثر اوقات آپس میں ہی جمع ہوکر سازشیں گھڑتے رہتے تھے۔ اور ہم نے اب تک ان کی بعض سازشوں کو جان لیا ہے، اور إن شاء اللہ سیرتِ نبوی کی تفصیلات پڑھتے ہوئے قد م بقدم ان کی مزید سازشوں کو جانیں گے، اور نفاق کے اُن خطرناک نتائج کا بھی علم ہوگا جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام دو چار تھے۔
ان تمام سازشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی اور اس نور کوپورا کیا، جسے ظالموں نے بجھادینا چاہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس نور کے ذریعہ پورے جزیرۂ عرب کو روشن کردیا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی غیر عرب علاقوں میں بھی وہ روشنی پھیل گئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خُلفائے راشدین کے
|