رہتا تھا۔ اسی وجہ سے قریش نے اس کے چاروں طرف ایک بند باندھ دیا تھا، اس کے باوجود اُس کے اوپر سے سیلاب گزر کر ہمیشہ اُس کے لیے خطرہ بنا رہتا تھا،اور پانی اونچا ہوکر بیت اللہ میں داخل ہوجاتا تھا، اور اس کی دیواریں پھٹ جاتی تھیں، اور اس کے گرجانے کا ڈر لگا رہتا تھا۔ نیز بیت اللہ کے دروازے زمین سے قریب تھے، اس لیے اس کے خزانوں اور تحفوں کی بارہا چوری ہوجاتی تھی۔
انہی دنوں ایک عورت خانۂ کعبہ کے پاس خوشبو دان لے کر آئی جس کی ایک چنگاری سے کعبہ کے غلاف میں آگ لگ گئی، اور پورا غلاف جل گیا۔ اس لیے قریش نے چاہا کہ اسے منہدم کرکے اونچا کردیں، اور اُس پر چھت ڈال دیں، اس لیے کہ پہلے سے وہ قد آدم سے کچھ اونچا پتھروں سے بنا ہوا تھا، جس پر کوئی چھت نہیں تھی۔ اُسی دیوار پر اس کا کپڑا ڈال کر لٹکادیا جاتا تھا، اور حجر اسود اُسی دیوار پر ادب واحترام کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔
جب قریش کے لوگ اس کے بنانے پر متفق ہوئے تواسے چار حصوں میں بانٹ دیا ، اور قرعہ اندازی کے ذریعہ سب نے اپنا اپنا حصہ جان لیا۔ ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ سب نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ اس کی تعمیر پر صرف حلال کمائی خرچ کریں گے ۔اس میں زانیہ کی اجرت، سود کامال، اور غصب کیا ہوا کوئی مال داخل نہیں ہونے دیں گے۔ پھر سب نے اپنا اپنا حصہ بنانا شروع کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تعمیر میں شرکت کی۔ اس وقت آپ کی عمر پینتیس سال تھی۔
جب تمام لوگوں نے پہلے پرانی دیواروں کو گرانے کا ارادہ کیا ،تو سب سے پہلے ولید بن مغیرہ نے ابتدا کی، جو ان میں سب سے زیادہ ہمت والا تھا۔ اس لیے کہ سب خائف تھے کہ اگر انہوں نے کعبہ کو گرایا تو کہیں کوئی عذاب نہ ان پر نازل ہوجائے۔ ولیدنے پھاوڑا مارتے ہوئے کہا: اے اللہ! تو ہمیں خوفزدہ نہ کر، اے اللہ ! ہم نے بھلائی کی نیت کی ہے۔
جب اس کو کھودتے ہوئے اس کی بنیاد تک پہنچے، جو سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے رکھی تھی تو اس مضبوط بنیاد پر نئی تعمیر شروع کردی۔ ہر قبیلہ اپنا حصہ بنانے لگا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے شرفاء اور عظماء اپنے کندھوں پر پتھر ڈھوتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنھما دیگرلوگوں کے ساتھ اجیادکے علاقے سے پتھر لاتے تھے۔
اُنہی دنوں رومیوں کا ایک سفینہ ساحلِ جدہ پر آکر ٹوٹ گیا ، تواہلِ قریش نے کعبہ کی چھت بنانے کے لیے اس کی لکڑیاں خرید لیں اور باقوم نامی رومی بڑھئی کو- جو اسی سفینہ میں سوار ہوکر حبشہ جا رہا تھا -اجرت پر رکھ لیا، تاکہ وہ کعبہ کی چھت بنا دے۔
جب اُن کا حلال پیسہ سیّدنا اسماعیل علیہ السلام کی بنیادوں پر خانۂ کعبہ کی تکمیل سے پہلے ختم ہوگیا تو انہوں نے حِجر(حطیم) والے حصہ کو نکال دیا جس کا طول چھ گز تھا، اور اس پر ایک چھوٹی دیوار بنا دی، تاکہ پہچان لیا جائے کہ دیوار کے اندر کا حصہ کعبہ میں داخل ہے، اور دروازہ زمین سے اونچا کردیا، تاکہ کعبہ میں وہی شخص داخل ہوسکے جسے اس میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پتھر ڈھوتے وقت ایک مُنقش کپڑا پہنے ہوئے تھے جس کا ایک حصہ آپ نے اپنے کندھے پر رکھ لیا تھا، تاکہ پتھروں کی سختی اور خشونت سے محفوظ رہیں۔ کپڑا چھوٹا ہونے کے سبب ایک بار آپ کی شرمگاہ کھل گئی تو آواز آئی، اے
|