جب مدینہ منورہ کے قریب آئے تو رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے: کل ہماری ملاقات اپنے پیاروں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت سے ہوگی۔ [1]
جب یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو آپؐ نے غایت درجہ اُن کی تعریف کی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہلِ یمن آئے ہیں، یہ لوگ سب سے زیادہ نرم اور گداز دل والے ہیں۔ ایمان یمانی ہے، حکمت یمانی ہے، اور فخر اور اِترانا اونٹ والوں میں ہوتا ہے، اور سکون ووقار بکری پالنے والوں میں ہوتا ہے۔ [2]
جُبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم لوگ مکہ کے راستہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک ہمارے سامنے سانولے رنگ کے اونٹ آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے پاس اہلِ یمن پہنچیں گے بادلوں کی مانند۔ یہ لوگ زمین میں سب سے اچھے لوگ ہیں۔ ایک انصاری صحابی نے پوچھا: کیا ہم لوگوں سے بھی اچھے ہیں اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ صحابی نے دوبارہ پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ جب تیسری بار پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھیمی آواز میں فرمایا: ہاں تمہارے سوا۔ [3]
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بنی تمیم کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپؐ نے فرمایا: بنی تمیم کے لوگو! تمہیں خوشخبری دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا: آپ نے خوشخبری دی ہے تو اب ہمیں کچھ دیجیے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہره مبارک بدل گیا۔ اس کے بعد اہلِ یمن آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی تمیم نے تو خوشخبری قبول نہیں کی، تم لوگ قبول کر لو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے قبول کر لی۔ [4]
صحیحین اور دیگر کتبِ احادیث میں ثابت شدہ یہ حدیثیں قبیلۂ اَشعرکے وفد کی بالخصوص اور اہلِ یمن کی بالعموم فضیلت کی دلیلیں ہیں۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہاں ہے، اور یمن کی طرف اشارہ فرمایا، اور بد خُلقی اور دل کی سختی فَدّادین میں ہے (یعنی اُن لوگوں میں جو کرخت اور تیز آواز والے، اور بہت سارے اونٹوں اور مال وجائداد والے ہوتے ہیں) جو اونٹوں کی دُموں کے پاس رہتے ہیں، جہاں سے شیطان کی دو سینگیں بر آمد ہوں گی، یعنی نجد کے قبیلۂ ربیعہ اور مضر کے لوگ۔ [5]
|