سلکان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ لوگ اس کے پاس ہتھیار لے کر آئیں تو اسے حیرت نہ ہو، پھر اس نے کہا: بے شک ہتھیار کے ذریعہ قیمت ادا ہوجائے گی، سلکان اپنے ساتھیوں کے پاس گئے اور ان کو ساری بات بتائی، اور انہیں کہا کہ وہ لوگ اپنے ہتھیارلے لیں، پھر چلیں اور اس کے پاس جمع ہوں۔
یہ سب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بقیع الغرقد تک ایک ساتھ پیدل گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت کی اور کہا: اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو، اے اللہ ! تو ان کی مدد فرما، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس آگئے، وہ ایک چاندنی رات تھی، اور وہ سب چلتے ہوئے اس کے قلعہ کے پاس پہنچ گئے۔
ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے اسے آواز دی، اس نے انہی دنوں نئی شادی کی تھی، اس نے اپنے بستر سے چھلانگ لگادی، اس کی بیوی نے اپنی پیشانی پکڑ کر کہا: تم ایک ایسے آدمی ہو جس کے خلاف اندرونی طور پر جنگ جاری ہے، اور جنگ کرنے والے لوگ ایسے وقت میں اپنے محل سے نیچے نہیں اُترتے۔ اُس نے کہا: یہ تو ابو نائلہ ہے، اگر وہ مجھے سویا ہوا پاتا تو نہ جگاتا، عورت نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس کی آواز میں برائی محسوس کررہی ہوں، کعب نے کہا: اگر جوان کو نیزہ ماردینے کے لیے بھی بلایا جاتا ہے تو وہ چلاجاتا ہے، پھر وہ نیچے اُترا، اور ابو نائلہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ دیر تک بات کرتا رہا، پھر صحابہ نے اس سے کہا: اے ابن الأشرف! کیا تم شعب العجوز نامی مقام تک ہمارے ساتھ چل سکتے ہو، تاکہ وہاں ہم رات کے باقی حصے میں آپس میں بات کریں، اس نے کہا: جیسی تم لوگوں کی مرضی، چنانچہ وہ لوگ وہاں سے نکل کر کچھ دیر تک چلتے رہے۔
پھر ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر کے بال میں داخل کردیا اور اپنا ہاتھ سونگھ کر کہنے لگے: آج کی رات کے مانند میں نے کبھی خوشبو نہیں سونگھی ہے، پھر کچھ دیر تک وہ چلتے رہے، پھر دوبارہ اسی طرح کہا، یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہوگیا، پھر کچھ دیر تک چلتے رہے، اورپہلے کی طرح اس کے سر کے بال سونگھتے ہوئے اس کے سر کو پوری طرح اپنے قابو میں کرلیا، پھر کہا: مارو اللہ کے دشمن کو، یہ سن کر ان سب کی تلواریں اس پر چلنے لگیں، لیکن وہ اب تک مارا نہیں جاسکاتھا، اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی تلوار کی اَنی لمبی تھی اسے انہوں نے اس کی ناف اور مثانے کے درمیان گھونپ دیا اور اس کو پوری طاقت سے دبایا، یہاں تک کہ پوری اَنی اس کے جسم میں داخل ہوگئی، اوراللہ کا دشمن پوری طاقت سے چیخنے لگا، اور ا س کے بعد گرگیا، اسی دوران حارث بن اوس کا پاؤں یا سر ہم میں سے کسی کی تلوار سے زخمی ہوگیا۔
ہم وہاں سے نکل کربنو امیہ بن زید کے علاقے سے گزرتے ہوئے بنو قریظہ اور مقام بُعاث سے ہوتے ہوئے حرۃ العریض تک پہنچ گئے، ہمارے ساتھی حارث بن اوس کو ہم تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور ان کا خون بہہ رہا تھا، ہم لوگ ان کا کچھ دیر تک انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس ہمارے نقش قدم کو دیکھتے ہوئے پہنچ گئے، ہم نے انہیں اُٹھالیا، اور ان کو لے کر آخری رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے، ہم نے آپ کو سلام کیا، آپ نکل کر ہمارے پاس آئے، ہم نے انہیں اللہ کے دشمن کے قتل کی خبر سنائی اور آپ نے ہمارے ساتھ حارث بن اوس رضی اللہ عنہ کے زخم پر اپنا لعاب ِ دہن لگا دیا اور ہم سب اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، اور اللہ کے دشمن کعب کے ساتھ ہماری اس کارروائی سے تمام یہود ڈر گئے، اور ہر ایک یہودی اپنے بارے میں ڈرنے لگا۔
|