Maktaba Wahhabi

329 - 704
خبریں لانے کے لیے بھیجا، یہ دونوں ینبع کے قریب مقام حَوراء میں ایک دیہاتی کے پاس گئے، اور اس کے پاس چھپ کر قیام کیا، اور جب قافلہ وہاں سے گزرا تو وہ دونوں فوراً مدینہ واپس آئے، ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تک مدینہ ہی میں ہیں، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلے سے متعلق تفصیلات بتائیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کا اور قافلے سے متعلق مزید خبروں کا انتظار نہیں کیا، بلکہ 8/رمضان المبارک سن دو ہجری کو تین سو تیرہ(313) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ روانہ ہوگئے، اُن کے پاس ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ ابو سفیان قافلہ سے آگے بڑھ کر ’’بدر ‘‘نامی کنویں کے پاس پہنچا، اور مجدی بن عمرو سے پوچھا: کیا تم نے کسی آدمی کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: میں نے کسی اجنبی آدمی کو نہیں دیکھا ہے، البتہ دو سواروں کو دیکھا جنہوں نے اس ٹیلے کے پاس اپنی اونٹنی بٹھائی، پھر اپنے گھڑے سے پانی پیا، پھر چل پڑے۔ یہ سن کر ابوسفیان اس جگہ پہنچا اور اونٹوں کا گوبر لے کر اسے توڑا تو اس میں اونٹ کی گٹھلی ملی، اس نے کہا: اللہ کی قسم یہ میگنیاں یثرب کی نشانیاں ہیں، چنانچہ وہ فوراً اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گیا، اور قافلے کے رُخ کو ساحلِ سمندر کے راستے سے پھیر دیا، اور مقامِ بدر کو چھوڑ کر تیزی کے ساتھ آگے بڑھا۔ اور جب ابو سفیان کو یقین ہوگیا کہ اس نے اپنے قافلے کو بچالیا، تو فوراً قریش کو خبر بھیجی کہ تم لوگ اپنے قافلے، اپنے لوگوں اور اپنے اموال کو بچانے کے لیے نکلے تھے، اللہ نے ان سب کو نجات دے دی، اس لیے تم لوگ لوٹ جاؤ، لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں مانی اور جذبات میں آکر کہنے لگے: کیا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ ہمارا قافلہ بھی ابن الحضرمی کے قافلہ جیسا ہوگا؟اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، وہ جلد ہی حقیقت کو جان لے گا۔ چنانچہ تمام اہلِ قریش کی حالت یہ تھی کہ یا تو ہر شخص جنگ کے لیے خود نکلا، یا اپنی جگہ کسی آدمی کو بھیجا قریش نے جنگ کی خوب تیاری کی، اور لوگوں کو خوب اُبھارا، اسی وجہ سے ان کے سرداروں میں سے ابولہب کے سوا کوئی پیچھے نہ رہا۔ ابو لہب نے اپنے بدلے ایک آدمی کوبھیجا جو اس کا مقروض تھا، اور اہلِ قریش نے اپنے اِرد گرد رہنے والے قبائلِ عرب کو بھی جمع کیا، اور قریشی خاندانوں میں سے کوئی پیچھے نہ رہا سوائے بنی عدی کے، ان کا کوئی آدمی ان کے ساتھ نہیں نکلا۔ امیہ بن خلف نے پیچھے رہنا چاہا جو ان میں ایک محترم، عمر رسیدہ اور بھاری بھرکم جسم والا آدمی تھا، لیکن عقبہ بن ابی معیط نے اسے عار دلائی، اوراس کے سامنے جب وہ لوگوں کے ساتھ کعبہ کے پاس بیٹھا تھا، ایک عود دان رکھ کر کہا: اے ابوعلی! یہ لو عود کی خوشبو سونگھو، اس لیے کہ تم عورت ہو، یہ سن کر وہ بھی تیار ہوکر لوگوں کے ساتھ نکل پڑا، اور عتبہ بن ربیعہ(جو مشرکوں کا سردار تھا) نے بھی مکہ میں رُک جانا چاہا، تو اس کے بھائی شیبہ نے کہا: اگر ہم اپنی قوم سے جدا ہوئے تو یہ ہمارے لیے گالی ہوگی، اس لیے تم اپنی قوم کے ساتھ ضرور چلو، چنانچہ وہ بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کو پالینے کے لیے جلد نکلنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ جس کے پاس سواری موجود ہے، وہ فوراً نکل چلے، اور کوئی خاص اہتمام نہیں کیا، اس لیے کہ آپ نے مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان فوجی مڈبھیڑ کی نہیں سوچی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پنجگانہ نماز کے لیے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو نائب بنادیا، جب آپؐ مقام روحاء پر پہنچے تو ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کومدینہ کا نائب بناکر واپس بھیج دیا۔ اور علَم جہاد مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو تھمایا، اور ایک
Flag Counter