رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ، وہاں پہلے سے ابوجہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ بیٹھے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے چچا! آپ لاإلہ إلَّا اللّٰہ کہہ دیجیے ، تاکہ میں اللہ کے پاس آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں ۔ ابو جہل وعبداللہ بن ابوامیّہ نے کہا: اے ابوطالب! آپ کیا عبدالمطلب کے دین سے برگشتہ ہوجائیں گے؟! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے سامنے اپنی بات دُہراتے رہے، یہاں تک کہ ابوطالب نے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی’’مجھے عبدالمطلب کے دین پر مرنا ہے‘‘ اور’’ لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ کہنے سے انکار کردیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کے لیے اللہ سے اس وقت تک طلبِ مغفرت کرتا رہوں گا، جب تک مجھے آپ کے لیے دعا کرنے سے روک نہ دیا جائے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
((مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ)) [التوبہ:113]
’’نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ مشرکوں کے بارے میں یہ بات کھل کر سامنے آجانے کے بعد کہ وہ جہنمی ہیں ان کے لیے دعائے مغفرت کریں، چاہے وہ رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں ۔‘‘
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ابوطالب کے بارے میں نازل فرمایا:
((إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)) [القصص:56]
’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ہیں ، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ ابوطالب نعمتِ ایمان سے مشرف نہیں ہوئے ، حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے، نیک اور راہِ راست پر گامزن ہیں۔ اسی لیے وہ حتی الإمکان اپنے قول وفعل اوراپنی جان ومال کے ذریعہ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانے سے روکتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وشفقت کرتے تھے، اور اپنے اشعار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب مدح سرائی کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایمان کو مقدر نہیں فرمایا تھا، اس کی عظیم حکمت ومصلحت کو باری تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
اسی لیے ابوطالب کی موت کفر پر ہوئی، جیسا کہ سیّدنا ابوسعید خُدری رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسِ مبارک میں آپ کے چچا کا ذکر چھیڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آجائے ، ان کا ٹھکانا ہلکی آگ میں ہوگا، جو ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ رہی ہوگی ، جس سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔ [1]
امام بخاری ومسلم رحمۃ اللہ علیہما نے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ اپنے چچا کے کیا کام آئے؟ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے دوسروں سے ناراض ہوتے تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایک ہلکی آگ میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کی سب سے نچلی کھائی میں ہوتے۔ [2]
|