ابو سفیان جب مدینہ پہنچا تو سیدھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، اور کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں صلحِ حدیبیہ کے موقع پر غیر حاضر تھا، اس لیے تم اب عہد نامہ کو مزید پختہ کر دو اور مدت بھی بڑھا دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوسفیان، کیا تم اسی لیے آئے ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہاری طرف کوئی نیا حادثہ وقوع پذیر ہوا ہے؟ ابو سفیان نے کہا: اللہ ہمیں ایسے کاموں سے پناہ میں رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم حدیبیہ کے دن کے عہد نامۂ صلح اور اس کی مدت کے پابند ہیں، اُس میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔
ابو سفیان یہ جواب سُن کر اپنی بیٹی اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنھا کے پاس گیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنا چاہا، تو اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہ نے اُسے لپیٹ دیا، ابو سفیان نے کہا: اے بیٹی! کیا تم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا، یا مجھے اس لائق نہیں سمجھا کہ اس پر بیٹھوں؟ انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے، اور تم مشرک ونجس ہو۔ ابو سفیان نے کہا: اے بیٹی! مجھ سے جدا ہونے کے بعد تم بُری ہوگئی ہو۔ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنھا نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام لانے کی توفیق دی ہے، اور تم اے میرے ابّا! سردارِ قریش ہونے کے باوجود کیسے اسلام لانے سے چوک گئے؟ کس عقل سے تم پتھر کو پوجتے ہو، جو نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: حیرت ہے کہ تم مجھے ایسی بات کہہ رہی ہے، کیا میں اُن معبودوں کو چھوڑ دوں جنہیں میرے آباء واجداد پوجتے تھے، اور دینِ محمد کی پیروی کر لوں؟ پھر ناراض ہو کر وہاں سے نکلا، اور دوبارہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد نامہ کے بارے میں بات کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ابو سفیان ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور اُن سے استدعا کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ وہاں سے اُٹھ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اُن کا جواب زیادہ سخت تھا، کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تم لوگوں کے لیے سفارش کروں گا؟ اگر مجھے ذرّوں کے سوا کچھ بھی نہ ملتا تو میں اسی کے ذریعہ تم لوگوں سے جہاد کرتا۔ پھر وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا: یہاں کے لوگوں میں تم سے زیادہ کوئی مجھ سے قریب نہیں ہے۔ کوشش کرو کہ صلح کی مدت بڑھا دی جائے، تمہارا ساتھی (محمد) تمہاری بات کا ضرور خیال رکھے گا، عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا معاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدہ کا ایک حصہ ہے۔ تب ابو سفیان علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اُس وقت اُن کے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہ بیٹھی تھیں، اور حَسَن بن علی رضی اللہ عنھما دونوں کے سامنے کھیل رہے تھے، ابو سفیان نے اپنی آمد کا منشا بیان کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفارش طلب کی۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوسفیان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک فیصلہ کر لیا ہے تو ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دوبارہ کوئی بات نہیں کر سکتے۔ ابو سفیان فاطمہ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا: کیا تم اپنے اس بیٹے کو کہوگی کہ وہ لوگوں کے درمیان صلح واَمن کے لیے واسطہ بنے، تاکہ وہ آگے چل کر عربوں کا سردار بن جائے؟ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا بیٹا ابھی اس عمر کو نہیں پہنچا ہے کہ وہ یہ کام کرسکے۔
ابو سفیان پر یہ حالات بہت سخت گزرے، چنانچہ اس نے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابو الحسن! میں ابھی بڑی مشکل گھڑی سے گزر رہا ہوں، اس لیے تم مجھے کوئی مشورہ دو۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میرے پاس تمہارے لیے کوئی مفید رائے نہیں ہے، لیکن تم تو بنی کنانہ کے سردار ہو، آگے بڑھو، اور لوگوں کے درمیان صلح وآشتی کی بات کرو، پھر اپنے شہر چلے جاؤ۔
|