Maktaba Wahhabi

154 - 704
ہجرت کی رات جب کفارِ قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے جمع ہوئے تو مکہ سے نکلنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد نائب بنادیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں واپس کرنے کے بعد وہ بھی ہجرت کرجائیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے جیسا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے معلوم ہوا کہ اہلِ قریش نے جب حجر اسود کو اس کی پہلی جگہ پر رکھنے کے سلسلے میں اختلاف کیا، اور پھر اس بات پر متفق ہوئے کہ بابِ بنی شیبہ سے داخل ہونے والا پہلا آدمی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، اور اللہ کی مشیت سے وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو سب نے بیک آواز کہا: یہ تو الأمین ہیں ،یہ تو محمد ہیں ، ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں ۔ [1] اہلِ مکہ کا آپ کو امین کہہ کر پکارنے پر کلی اتفاق، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پینتیس سال تھی، اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے زندگی کے تمام امور میں سچائی اور امانت کے ساتھ مشہور ہوگئے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصحیح میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے تورات میں مذکور آپ کی صفات کے بیان میں روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرکریمانہ اخلاق سے نوازوں گا، سکون ووقار کو اُس کا لباس بناؤں گا، نیکی اور بھلائی کو اس کا شعار، تقویٰ کو اس کی ضمیر، حکمت کو اس کی گفتگو، اور سچائی اور وفاداری کو اس کا مزاج بناؤں گا۔ [2] معلوم ہوا کہ زمانۂ جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے والے ہر فرد نے بچپن سے ہی آپ کوالصادق الامین کے نام سے پکارا۔ اور نبوت پانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عظیم امانت کا بارگراں اٹھایا ، اس کا تقاضا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہی گئی ہر بات میں صادق اور دنیا والوں تک اس کے پہنچانے میں امین ہوں ۔ اور ہرقل نے ابوسفیان کی بات کا جواب دیتے ہوئے اِسی کی طرف اشارہ کیا تھا جب کہا تھا:ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں کے بارے میں توجھوٹ بولنا گوارہ نہ کرے، اور اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے۔ خود اللہ عزوجل نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سچائی اور امانت کی گواہی دی ہے۔ سورۃ الحاقہ آیات(44-46) میں ربّ ذوالجلال نے فرمایاہے: ((وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿44﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿45﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ)) ’’اوراگر (میرے نبی) بعض باتیں گھڑ کر میری طرف منسوب کردیتے، تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی شہِ رگ کاٹ دیتے۔‘‘ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے بارے میں کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہی، اور نہ قرآنِ کریم اور سنتِ نبویہ کو اپنی طرف سے گھڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا، بلکہ یہ ساری چیزیں ربّ العالمین کی طرف سے بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تھیں۔
Flag Counter