میرا معمول تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا، آپؐ کو نماز کے بعد مجلس میں سلام کرتا، اور دل میں سوچتا، آپؐ کے دونوں ہونٹ سلام کے جواب میں ہلے تھے یا نہیں؟ آپؐ کے قریب نماز پڑھتا، چور نگاہوں سے آپ کو دیکھتا۔ جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا تو آپ میری طرف متوجہ ہوتے، اور جب میں آپؐ کی طرف رُخ کرتا، تو آپ منہ پھیر لیتے۔
مسلمانوں کی یہ بے رُخی جب بہت طویل ہوگئی تو ایک دن میں اپنے چچا زاد ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پھلانگ کر اس کے پاس پہنچ گیا، اس سے مجھے بہت محبت تھی، میں نے اُسے سلام کیا تو اس نے جواب نہیں دیا۔ میں نے اس سے پوچھا: اے ابوقتادہ! تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہوکہ میں اللہ اور اُس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں؟ وہ خاموش رہا۔ میں نے دوبارہ اپنی بات دُہرائی، وہ پھر چُپ رہا۔ میں نے سہ بارہ اپنی بات دُہرائی تو اُس نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔ یہ سُن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں دیوار پھلانگ کر واپس ہوگیا۔
ایک دن میں بازارِ مدینہ میں چل رہا تھا تو ایک نبطی شخص میرے پاس آیا اور غسّانی بادشاہ کا ایک خط نکال کر دیا جس میں لکھا تھا: ’’مجھے خبر ملی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم پر زیادتی کی ہے، اور اللہ نے تمہیں ذلیل وخوار آدمی نہیں بنایا ہے، اس لیے تم میرے پاس آجاؤ، میں تمہاری دلدہی کروں گا۔‘‘
کعب کہتے ہیں کہ جب میں نے خط پڑھ لیا تو فوراً خیال آیا کہ یہ ایک اور آزمائش ہے، اور اُس خط کو چولہے میں ڈال دیا۔ جب چالیس دن گزر گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبر نے آکر خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اپنی بیوی سے الگ رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا: اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ قاصد نے کہا: نہیں، بس اُس سے الگ رہو، اُس کے قریب نہ جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں ساتھیوں کو بھی ایسا ہی حکم دیا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے میکے چلی جاؤ، وہیں رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔
ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہلال بن امیّہ ایک بوڑھے اور کمزورآدمی ہیں، ان کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے، کیا آپ ناپسند کرتے ہیں کہ میں اُن کی خدمت کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ تم سے قریب نہ ہو۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اس طرح کی کسی بات کے لیے اُن میں کوئی حرکت بھی نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ حادثہ پیش آیا ہے وہ مسلسل رو رہے ہیں۔
کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے بعض رشتہ داروں نے کہا: کیا حرج ہے کہ تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے لیے اجازت مانگ لو جیسا کہ آپ نے ہلال بن امیّہ کی بیوی کو ان کی خدمت کی اجازت دی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں مانگوں گا، اور کیا معلوم کہ اجازت مانگنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کیا کہیں گے، اس لیے کہ میں جوان آدمی ہوں۔
میں ان حالات کے بعد دس راتیں کرب واذیت میں گزارتا رہا حتی کہ پچاس راتیں پوری ہوگئیں۔ پچاسویں رات کی صبح کو میں اپنے گھر کی چھت پر فجر کی نماز پڑھ کر زندگی سے بیزار بیٹھا تھا، اور زمین اپنی ہزار وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ
|