حارث بن ابو ضرار اور اس کے ساتھ جمع ہونے والے دیگر عربوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ سے چل پڑنے کی خبر ہوئی تو بہت زیادہ ڈر گئے، اور عرب قبائل کے بہت سے لوگ ان سے الگ ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام مریسیع پر پہنچے جو پانی کی ایک جگہ تھی، اور جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی صف بندی کی، اور مہاجرین کا جھنڈا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اور انصار کا جھنڈا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو دیا، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ کافروں کے درمیان منادی کرادیں کہ اے لوگو! کہو: لا الٰہ الا اللہ اور اس کلمہ کے ذریعہ اپنی جانوں اور اپنے اموال کی حفاظت کرلو، لیکن انہوں نے انکار کردیا، اور ایک گھنٹہ تک تیر چلاتے رہے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا، اورانہوں نے یکبارگی متحد ہوکر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو فتح ونصرت حاصل ہوئی اور مشرکین شکست کھاگئے، ان میں سے بہت سے لوگ قتل کیے گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا، اور ان کے چوپایوں اور بکریوں کو اپنے قبضے میں کرلیا، اور مسلمانوںمیں سے ہشام بن صبابہ نامی صرف ایک آدمی قتل ہوا، جسے غلطی سے ایک انصار ی نے قتل کردیا تھا۔
یہ ابن اسحاق کی روایت ہے جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ مریسیع نامی کنویں کے پاس جنگ ہوئی، پھر بنی المصطلق کے لوگ شکست کھاگئے ۔ [1] اور ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ ان کا وہم ہے، ان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی، جیسا کہ امام بخاری ومسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے جواس غزوہ میں شریک تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی المصطلق پر اس وقت حملہ کیا جب وہ بالکل غافل تھے، اوران کے چوپائے کنویں پر پانی پی رہے تھے، چنانچہ صحابہ کرام نے ان کے جنگ کرنے والے جوانوں کو قتل کیا اور ان کے بال بچوں کو قیدی بنالیا، اسی دن سیّدہ جویریہ رضی اللہ عنہما بھی قید کرلی گئیں ۔ [2]
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی روایت میں صراحت کردی ہے کہ بنی المصطلق پر حملہ انہیں بغیر خبر کیے ہوا تھا، اس لیے کہ انہیں اسلام کی دعوت پہنچ چکی تھی، اور غزوۂ احد میں قریشیوں کے ساتھ شرکت کے بعد ثابت ہوچکا تھا کہ وہ ہر وقت مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں یقینی خبر پہنچ چکی تھی کہ وہ لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے عرب قبائل کوجمع کررہے ہیں، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج نے انہیں اچانک جالیا، جس کی وہ تاب نہ لاسکے اور زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کرسکے۔ [3]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن اسحاق کی روایت اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے درمیان تطبیق پیدا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ احتمال اس بات کا ہے کہ جب مسلمانوں نے بنی المصطلق پر ان کے مریسیع نامی کنویں پر اچانک حملہ کردیا تو انہوں نے تھوڑی دیر جنگ کی، لیکن پھر پسپا ہوگئے۔ [4]
واقدی نے لکھا ہے کہ بنی المصطلق کے دس آدمی قتل کیے گئے اور باقی قید کرلیے گئے، ان کا ایک آدمی بھی بھاگنے میں کامیاب نہ ہوسکا، اور اموالِ غنیمت کے طور پر دو ہزار اونٹ، اور پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں، اور دو سو گھرانوں کی عورتیں اور بچے گرفتار کرلیے گئے، ایک روایت میں ہے کہ قیدیوں کی تعداد سات سو سے زیادہ تھی، بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تعارض
|