Maktaba Wahhabi

619 - 704
پینے کے ضروری اسباب مہیا کر لیے، جنہیں فوج کے بہت سے افراد اپنے مالِ خاص سے مہیا نہیں کرسکتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سب سے زیادہ جو د و سخاوت کا عملی ثبوت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دیا، انہوں نے مجاہدین کے لیے اتنے مالِ کثیر کا عطیہ دیا کہ اس قسم کے داد ودہش کے گزشتہ سارے ریکارڈ توڑ دیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خوش ہوئے، اُن سے غایت درجہ رضا مندی کا اظہار فرمایا، اور اُن کے لیے خوب دعائیں کیں۔ عبدالرحمن بن سَمْرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے میں ایک ہزار دینار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ہاتھ سے اُلٹ پلٹ کرنے لگے اور فرمایا: آج کے بعد عثمان جو چاہیں کریں، ان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بار بار دُہرائی۔ [1] ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر آئے جو چار ہزار درہم تھا، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے کر آئے۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک سو اوقیہ سونا لے کر آئے۔ عباس بن عبدالمطلب، طلحہ بن عبیداللہ اور عاصم بن عدی رضی اللہ عنھم بہت سارے اموال لے کر آئے۔ مسلمان عورتوں نے اپنے زیورات وجواہر صدقہ کر دیے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس غزوہ میں شرکت کی اجازت مانگی۔ غریب ونادار مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس غزوہ میں شرکت کے لیے سواریاں مانگیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: میرے پاس تمہارے لیے سواریاں نہیں ہیں، تو وہ واپس چلے گئے۔ در آنحالیکہ اُن کی آنکھوں سے شدتِ غم سے آنسو جاری تھے، اسی لیے اِن کا نام ’’رونے والے‘‘ پڑ گیا، اس لیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے روتے ہوئے واپس ہوئے تھے، اس محرومی پر کہ وہ اللہ کی راہ میں نہ خرچ کر سکے، نہ ہی اپنی جان سے جہاد کر سکے۔ مؤرخینِ سیرت نے اُن رونے والوں کی تعداد سات بتائی ہے، اور اُن کے بارے میں سورۃ التوبہ کی مندرجہ ذیل دو آیتیں نازل ہوئیں: ((لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّـهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿91﴾ وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ)) [التوبہ:91-92] ’’ کمزوروں کے لیے گناہ کی بات نہیں، اور نہ مریضوں کے لیے، اور نہ اُن کے لیے جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں، اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخلص اور خیر خواہ ہوں۔ نیک لوگوں پر الزام لگانے کی کوئی وجہ نہیں، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اور نہ اُن کے لیے کوئی گناہ کی بات ہے جو آپ کے پاس آئے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کا انتظام کر دیں، تو آپ نے کہا کہ میرے پاس تمہارے
Flag Counter