میں انسانی جنگوں کی تاریخ میں سب سے کم خون بہایا گیا، اور فریقین کے مقتولین کی تعداد صرف ایک ہزار اٹھارہ پہنچتی ہے۔
اِن جنگوں کے ذریعہ اتنی جانوں کی حفاظت ہوئی، اور اتنی عصمتیں اور عزّتیں محفوظ ہوئیں جن کا شمار ناممکن ہے، اور پورے جزیرہ عرب میں اَمن وآشتی ایسی عام ہوگئی کہ ایک عورت حیرہ سے سفر کرکے مکہ پہنچتی، بیت اللہ کا طواف کرتی تھی اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی تھی، جبکہ اسلام سے پہلے بد اَمنی ایسی عام تھی کہ حکومتی قافلے ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر بیدار اور چوکنّے حفاظتی دستوں کو ساتھ لیے سفر نہیں کر سکتے تھے۔
اِس کے مقابلے میں جب ہم برٹش انسائیکلو پیڈیا کے مطابق دونوں عالمگیر جنگوں میں مقتولین کی تعداد کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں جو 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، چونسٹھ لاکھ جانیں ضائع ہوئیں، اور دوسری جنگِ عظیم میں جو 1939ء سے 1945ء تک چلتی رہی، ساڑھے تین کروڑ سے چھ کروڑ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اِن دونوں جنگوں میں بے شمار انسانوں کے اس قتلِ عام اور کروڑوں لوگوں کے بے گھر ہونے سے انسانوں کی کون سی خدمت ہوئی، آج تک کوئی نہ بتا سکا۔
اسی طرح دنیا کی کمیونسٹ طاقتوں نے کم از کم دس کروڑ مزدوروں اور کاشتکاروں کو جانوروں کی طرح صرف اس لیے ذبح کر دیا تاکہ اپنے اشتراکی نظریات کو نافذ کر سکیں، اس قتل وخونریزی سے دنیائے انسانیت کو سوائے ہلاکت وبربادی کے کچھ نہ ملا۔
اس کے برعکس خاتم النّبیین کے غزوات سارے عالم کے لیے رحمت کی حیثیت رکھتے تھے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔ کچھ مزید اچھے نتائج کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کا مقصد اللہ تعالیٰ کے بے گناہ بندوں کو قتل کرنا اور زمین میں شر وفساد اور ظلم وطغیانی پھیلانا ہرگز نہیں تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غزوات کے ذریعہ سب سے پہلے پورے جزیرہ عرب میں اَمن وآشتی کو عام کیا، فتنوں کی آگ بجھائی اور اُن بُت پرستوں کی قوت کو پاش پاش کیا جو اسلام اور عقیدہ توحید کے بد ترین دشمن تھے، اور دعوتِ اسلامیہ کی راہ میں بھاری پتھر بنے ہوئے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو تعلیم دی کہ جنگوں کے اعلیٰ اخلاقی مقاصد کیا ہونے چاہییں، اور اُن تمام ظالمانہ اور سفاکانہ اغراض ومقاصد کا ابطال کیا جن کی خاطر عہدِ جاہلیت میں جنگوں کی آگ بھڑکائی جاتی تھی۔ اسلام سے پہلے جنگ نام تھا لوٹ مار، قتل وغارتگری، ظلم وعُدوان اور انتقام کی آگ بُجھانے کا، اور بڑی جنگوں کا مقصد تھا کمزوروں کو زیر کرنا، شہروں اور آبادیوں کو تاراج کرنا، زمین میں فساد پھیلانا اور عزّت وآبرو لوٹنا۔
یہی حال سارے عالم کا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اس لیے جہاد کیا کہ کمزور انسانوں کو ظلم وبربریت اور استبداد وطغیان سے نجات دلائیں، غدروخیانت کا خاتمہ کریں، اَمن وسلامتی کا پیغام عام کریں، اور اللہ کے بندوں کو رحمت والفت کی عملی تعلیم دیں۔
|