اِ س خط کو پادریوں نے نجران کے اصحابِ عقل وخرد نصاریٰ کے سامنے پیش کیا، پھر سب نے مل کر اتفاق کیا کہ وہ ایک وفد مدینہ بھیجیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات جمع کرکے لائے۔ یہ وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا: آج یہاں قیام کرو اور کل آؤ تاکہ میں تمہیں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ بات بتاؤں جو مجھے بذریعہ وحی بتائی جائے گی۔ چنانچہ کل صبح اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
((إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿59﴾ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿60﴾ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ)) [آل ِعمران:59-61]
’’بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال ہے، اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر کہا کہ ہو جا، تو وہ ہوگیا۔ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق بات ہے، اس لیے آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جائیے۔ پس جو کوئی آپ سے اس بارے میں آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جھگڑے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بیٹوں کو، اور عورتوں کو، اور اپنے آپ کو اکٹھا کر لیں، پھر عاجزی کے ساتھ دعا کریں، اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔‘‘
وفد کے لوگوں نے اس عقیدہ کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے مباہلہ کرنا چاہا، لیکن انہوں نے اس کا بھی انکار کر دیا، اور نصرانیت پر باقی رہتے ہوئے جزیہ دینے کی رضا مندی ظاہر کی۔ تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صلح نامہ لکھ کر دیا، اس شرط پر کہ وہ دو ہزار جوڑے (کپڑے) سالانہ دیا کریں گے۔ ایک ہزار ماہِ رجب میں، اور ایک ہزار ماہِ صفر میں، اور ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اللہ اور اللہ کے رسول کا عہد دیا، اور اُن کو ان کے دین پر پوری آزادی کے ساتھ رہنے دیا۔ اِس کے بعد وہ لوگ صلح نامہ کے ساتھ نجران واپس چلے گئے۔
امام بخاری ومسلم اور دیگر ائمۂ حدیث نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نجران کے دو پادری عاقب اور سیّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مباہلہ کے لیے آئے۔ اُن میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم! اگر یہ نبی ہے اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے اور ہمارے بعد ہماری کوئی اولاد باقی نہیں رہے گی۔ بالآخر دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم جزیہ دیا کریں گے۔ ہمارے پاس کسی امانت دار آدمی کو بھیج دیجیے۔ دیکھیے امانت دار کو ہی بھیجئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس امانت دار کو ہی بھیجوں گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنی گردنیں اٹھانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو عبیدہ بن الجراح اٹھو۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس امت کا امین ہے۔ [1]
امام مسلم نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران بھیجا تھا۔ [2] اور ابن اسحاق نے لکھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اہلِ نجران کی زکاۃ اور جزیہ جمع کرنے کے لیے بھیجا تھا، [3]
|