جانب دیکھنے لگے، تو تیرہ سواروں کا ایک قافلہ آرہا تھا۔ انہوں نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ کہا: ہم بنی عبد القیس کے لوگ ہیں۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم لوگ تجارت کی غرض سے آئے ہو؟ لوگوں نے کہا: نہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابھی ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کا ذکر کیا ہے اور تمہارے بارے میں بہت اچھی بات کہی ہے، عمر رضی اللہ عنہ اُن کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور وفد والوں سے کہا: یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن سے ملنے کے لیے تم لوگ آئے ہو۔ یہ سنتے ہی وفد والے بڑی تیزی سے اپنی سواریوں سے اترے، اور کوئی چلنے لگا،تو کوئی جھٹک کر چلنے لگا، اور کوئی تیز دوڑنے لگا، یہاں تک کہ سبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور آپؐ کا دستِ مبارک پکڑ کر اسے چومنے لگے۔ اُن میں ایک ’’أشِّج‘‘ لقب کا جوان تھا جس نے پہلے اپنی اونٹنی کو بٹھایا، اپنے ساتھیوں کے اسباب ومتاع کو جمع کیا، پھر چلتا ہوا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر اسے چومنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جوان سے فرمایا: تمہارے اندر دو خصلتیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہیں۔ اُس نے پوچھا: یہ اللہ کی طرف سے مجھ میں ودیعت کی گئی ہیں، یا میں نے خود کسب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی طرف سے ہیں۔ اُس نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھ میں ایسی خصلتیں پیدا کی ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول پسند فرماتے ہیں۔ [1]
وفد کا ایک آدمی جس کا نام زارع بن عامر یا ابن عمرو عبدی تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ میرے ایک ماموں ہیں جنہیں کوئی بیماری ہے، آپ اُن کے لیے دعا کر دیجیے۔ آپؐ نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ اسے میرے پاس لے آؤ۔ زارع کہتے ہیں: میں نے اَشج کی طرح کیا، ماموں کو دو کپڑے پہنائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی چادر پکڑ کر اُٹھایا یہاں تک کہ اُن کے بغل کی سفیدی نظر آنے لگی، پھر اُن کی پیٹھ پر ایک ٹھوکر لگائی اور کہا: اے اللہ کے دشمن! نکل، ماموں نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور ایک تندرست شخص کی طرح دیکھنے لگے۔ [2]
ابن سعد نے طبقات میں اور ابو یعلیٰ اور طبرانی نے سندِ جید کے ساتھ روایت کی ہے کہ: اَشجّ وفد میں سب سے کم عمر اور بد شکل تھے۔ انہوں نے اپنی بد صورتی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بھانپ لیا، اور کہا: اے اللہ کے رسول! آدمی چمڑے کی خوبصورتی کا نام نہیں، آدمی اپنے جسم کی سب سے چھوٹی دو چیزوں کا نام ہے: اُس کا دل اور اس کی زبان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اندر دو خصلتیں ہیں’’بردباری اور اطمینان‘‘ انہیں اللہ اور اس کے رسول پسند فرماتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد وفد سے مخاطب ہو کر فرمایا: بڑی خوشی کی بات ہے تمہارا آنا، نہ تم لوگ ذلیل ورسوا ہوگے اور نہ نادم ہوگے۔ پھر فرمایا:میں تمہیں ایمان باللہ کا حکم دیتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کیا ہے ایمان باللہ؟ گواہی دینی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دینی کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور نماز پڑھنا اور زکاۃ دینا اور رمضان کے روزے رکھنا، اور یہ کہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے نکال دینا۔ اور میں تم لوگوں کو دُبّاء، حنتم، نقیر اور مزفّت [3] برتنوں کے استعمال سے روکتا ہوں۔ (کیونکہ کھجور اور انگور وغیرہ کو اِن برتنوں میں پانی کے ساتھ بھگو کر شراب بنائی جاتی ہے)۔ اَشجّ نے کہا: اے اللہ کے
|