عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے جو ان دونوں کے چچا زاد اور ماں کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے۔ وہ دونوں ہمارے پاس مدینہ آئے اور عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا: تمہاری ماں نے نذر مان لی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہیں لے گی اپنے سر میں کنگھی نہیں کرے گی۔عیاش رضی اللہ عنہ کا دل یہ سُن کر نرم پڑگیا۔
میں نے عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! دیکھو، یہ لوگ تمہیں کہیں تمہارے دین سے پھرنے پر مجبور نہ کردیں ، اللہ کی قسم! اگر جوؤں سے تمہاری ماں کو تکلیف پہنچے گی تو وہ ضرور کنگھی کرے گی ، اور اگر مکہ کی گرمی اسے ستائے گی تب بھی وہ ضرور کنگھی کرے گی۔ عیاش نے کہا: میرا وہاں کچھ مال ہے میں اسے لانا چاہتا ہوں۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اس سے کہا: تم جانتے ہو کہ میں اہل قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ، میں تمہیں اپنا آدھا مال دے دوں گا ، تم ان کے ساتھ مت جاؤ، لیکن اس نے انکار کردیا، تو میں نے اس سے کہا: جب تم ایسا کرنے پر بضد ہو، تو میری یہ اونٹنی لے لو، جو بہت ہی تابعدار اونٹنی ہے ، اور اس کی پیٹھ سے چپکے رہو۔ عیاش رضی اللہ عنہ اس پر سوار ہوکر ان دونوں کے ساتھ چل پڑے ، جب کچھ راستہ طے ہوگیا تو ابوجہل نے کہا: میری یہ اونٹنی سُست پڑگئی ہے ، کیا تم مجھے اپنی اونٹنی پر نہیں بیٹھاؤگے؟ عیاش رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، پھر ان تینوں نے اپنی اونٹنیوں کو بٹھا دیا تاکہ ابوجہل عیاش کے ساتھ سوار ہوجائے ، جب تینوں زمین پر اُترگئے تو ان دونوں نے عیاش کو پکڑکر رسی سے باندھ دیا، اور اسی حال میں انہیں مکہ لے کر آئے، اورانہیں شدید آزمائش میں مبتلا کیا، جس سے وہ مغلوب ہوگئے ۔
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم! اللہ اس آدمی کی طرف سے کسی صدقہ وخیرات کو قبول نہیں کرے گا، جو اللہ کے دین کی خاطر آزمائش سے شکست کھاگیا۔ اللہ ان لوگوں کی توبہ کو قبول نہیں کرے گا ، جنہوں نے اللہ کو پہچانا پھر آزمائشوں کی تاب نہ لاکر کفر کی طرف لوٹ گئے ۔
عیاش رضی اللہ عنہ مکہ میں اسی حال میں رہے ، یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ نکل کر مدینہ پہنچے جو فتحِ مکہ سے پہلے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے ہمیشہ نجات کی دعا کرتے تھے۔
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : آزمائشوں سے شکست کھاجانے والے مسلمان بھی اپنے بارے میں یہی کچھ کہتے تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان جیسے اقوال وافکار کے بارے میں نازل فرمایا:
((قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿53﴾ وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿54﴾ وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ)) [الزمر:53-55]
’’اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے : اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنے آپ پر (گناہوں کا ارتکاب کرکے) زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ، بے حد مہربان ہے۔اور تم سب اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اُسی کی طاعت وبندگی میں لگے رہو، اس سے قبل کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے ، پھر کسی جانب سے تمہاری مدد نہ کی جائے ۔اور تم سب
|