Maktaba Wahhabi

414 - 704
ساتھ منذر بن عمرو ، اور دیگر ستر صحابہ کرام کو بھیج دیا، جو مسلمانوں کے سردار اور ان کے علماء وفضلاء تھے، یہ حضرات مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر بئر معونہ پہنچے جو علاقۂ بنی عامر اور حرۂ بنی سلیم کے درمیان واقع تھا، اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا، پھر عامر بن طفیل سردار بنی عامر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے ساتھ حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو بھیجا، لیکن اس نے اُسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا، ایک آدمی نے ان پر پیچھے سے نیزے کے ذریعہ حملہ کردیا، جب نیزہ ان کے جسم میں پیوست ہوگیا اور انہوں نے خون دیکھا تو کہا: ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ عامر اپنی قوم کو منذ ر اور ان کے ساتھیوں سے جنگ کرنے پر اُبھارنے لگا، لیکن انہو ں نے اس کی بات نہیں مانی اور ابو براء سے کیے گئے عہد کی مخالفت کا انکار کردیا۔ تب اس نے بنو سلیم کو جنگ پر آمادہ کیا اور قبائل عُصَیّہ اور رعل اور ذکوان نے اس کی بات مان لی، اور صحابہ کرام کو چاروں طرف سے گھیر کر جنگ شروع کردی، اور کعب بن زید بن نجار رضی اللہ عنہ کے سوا سب کو قتل کردیا۔ کعب بن زید رضی اللہ عنہ مقتولین کے درمیان گھس کر چھپ گئے تھے اس لیے وہ بچ گئے اور مدینہ منورہ واپس آنے میں کامیاب ہوگئے، اور بعد ازاں غزوۂ خندق میں شہید ہوئے۔ عمرو بن امیہ ضمری اورمنذر بن محمد رضی اللہ عنہما دور صحابہ کرام کے سامان کی حفاظت کررہے تھے، جب انہوں نے چڑیوں کو ان کی قتل گاہ کے قریب اڑتے دیکھا تو دونوں وہاں پہنچے، منذ ر مشرکین سے قتال کرتے ہوئے شہید ہوگئے، اور عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ قید کرلیے گئے، ان کے بارے میں مشرکین کو معلوم ہوا کہ وہ قبیلۂ مضر کے ہیں، تو عامر بن طفیل نے ان کی پیشانی کے بال کاٹ دیے اور ایک غلام کے بدلے آزاد کردیا۔ عامر کا خیال تھا کہ وہ کفارہ اس کی ماں پر واجب تھا۔ اس طرح عمرو رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آگئے، اور مسلمانوں نے اپنے ستر بہترین داعیانِ اسلام کو کھودیا۔ اس واقعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بادیہ نشین دیہاتیوں میں جاکر اسلام کی دعوت کا کام کرنا اس زمانے میں موت کے خطروں سے گھرا ہوتا تھا، لیکن ان خطروں نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بادیہ نشینوں کے درمیان تبلیغِ اسلام سے نہیں روکا۔ ابو براء رضی اللہ عنہ کو جب اس بد عہدی کی خبر ملی تو اسے بہت ہی زیادہ ملال ہوا، اور اپنے بیٹے ربیع کو عامر بن طفیل کے پاس بھیجا، جس نے اسے قتل کردیا۔ [1]اس المناک واقعہ کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی رات ہوئی جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم الرجیع کے المناک واقعہ کی خبر ہوئی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں حادثات سے متأثر ہوکر بہت زیادہ غمگین ہوئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد دعائے قنوت پڑھتے رہے، اور بنو سلیم کے قبائل رعل، ذکوان اور عُصَیَّہ پر بددعا کرتے رہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آمین کہتے رہے۔ [2]
Flag Counter