سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے والے مسلسل دو دن تک جَو کی روٹی کھا کر آسودہ نہیں ہوئے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اٹھا لیے گئے۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں: رسول اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں کئی کئی راتیں رات کا کھانے کھائے بغیر سو جاتی تھیں اور اُن کی روٹی اکثر جَو کی ہوتی تھی۔
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور لائی جاتی تھی،تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سے کھاتے ہوئے دیکھتا تھا، در آنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی وجہ سے پیچھے کسی چیز سے ٹیک لگائے ہوتے تھے۔[1]
اور تعدّد ازواج کو فطرتِ سلیم اور اُس دور کا عربی سماج بخوشی قبول کرتا تھا، اور جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا سوسائٹی کے اخلاقی تقاضے بھی یہی تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دی۔ اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت وشناعت نہیں تھی، نہ اخلاقی اعتبار سے، اور نہ ہی مسلم سوسائٹی کی مصلحتوں کی رُو سے، نہ کسی صحابی نے اس پر کوئی اعتراض کیا، نہ محدثین کرام اور ائمہ عظام نے۔ گویا پوری امتِ مسلمہ نے اللہ کی طرف سے ایک حکمِ شرعی سمجھ کر اسے قبول کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، اور جس کے اَن گِنت فوائد ومنافع تھے جن کا تفصیل کے ساتھ اوپر ذکر ہو چکا۔
لیکن یہود ونصاریٰ کو بالعموم اور اُن کے کینہ پرور مستشرقین کو بالخصوص اِس امر الٰہی میں بہت سے کیڑے نظر آنے لگے، اور اسلام اورنبیٔ اسلام کے خلاف اپنے گھٹیا اغراض ومقاصد کو پورا کرنے کے لیے بلادِ عربیہ کی اجتماعی زندگی اور شریعتِ اسلامیہ کے عائلی قوانین کو فسق وفجور اور زنا کے مرض میں مبتلا اپنے ذہنی افکار ومیزان سے تولنے لگے، اور دین اسلام کے احکامِ نکاح وطلاق کے بارے میں اپنے آراء وافکار سے امتِ مسلمہ کو نوازنے لگے، جن کی ہر چند مسلمانوں کوکوئی ضرورت نہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعدّد ازواج پر زبان درازی کرنے لگے تاکہ مغرب زدہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالیں کہ دینِ اسلام کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیغام الٰہی کی ذمہ داری اٹھانے کے اہل نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ ایسی فکر ِ کافری کے ساتھ دراز زبانوں کو ہمیشہ کے لیے گنگ کر دے۔
اہلِ مغرب کے لیے یہ چیز باعثِ ننگ وعار ہے کہ اخلاقی جرائم اور جنسی بے راہ رویوں اور انارکیوں سے بھرے ممالک میں رہنے والے خود تو فسق وفجور اور زنا کاریوں کے سیلاب میں غلطاں وپیچاں ہیں، اور اپنے ان گندے سماجوں کی اصلاح کی بات نہ کرکے اپنی گندی زبانوں سے رسولِ ہاشمی فداہ ابی وامّی اور پاکیزہ صفات اُمہات المؤمنین کے نام لیتے ہیں اور ان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زنا اہل مغرب کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، اُن کی فطرت مسخ ہو چکی ہے، ان کی زندگی سے خیر کے تمام نشانات مٹ چکے ہیں، وہ بندروں اور سُوَروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے خلاف اظہارِ جرأت کرتے ہیں کبھی قرآن کریم میں شبہات پیدا کرتے ہیں تو کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن وتابناک اور بے داغ زندگی پر جھوٹی تہمتیں لگاتے ہیں۔ سچ ہے، جو ایمان کی دولت سے محروم ہوتا ہے، اس کے لیے ہر گناہ ہلکا اور آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ دن دور
|