چاہا، امّ حبیبہ رضی اللہ عنھا نے فوراً بستر کو لپیٹ دیا، ابو سفیان نے کہا: اے بیٹی! تم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا، یا مجھے اس بستر کے لائق نہیں سمجھا؟ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنھا نے کہا: بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے، اور آپ ایک ناپاک اور مشرک آدمی ہیں۔ ابو سفیان نے کہا: اے بیٹی! میرے بعد تمہیں کوئی بُری شے لاحق ہوگئی ہے۔ [1]
10: سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ساتھ حج کیا، راستہ میں ایک جگہ میرا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا، تو میں رونے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور اپنی چادر اور ہاتھوں سے میرے آنسو پونچھنے لگے، میں اور رونے لگی، اور مجھے منع کرنے لگے، جب میں زیادہ رونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹ پلائی۔ [2]
11: ترمذی نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: صفیہ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کو حفصہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ’’یہودی کی بیٹی‘‘ کہا ہے، تو وہ رونے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس آئے تو وہ رو رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیوں رو رہی ہو؟ انہوں نے بتایا کہ مجھے حفصہ نے ’’یہودی کی بیٹی‘‘ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تونبی کی بیٹی ہو، اور تمہارے چچا نبی تھے، اور تم نبی کی بیوی ہو، پھر کس بات پر وہ تمہارے سامنے فخر کرتی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: حفصہ، تم اللہ سے ڈرو۔ [3]
12: سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں حالتِ اعتکاف میں تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھنٹہ تک گفتگو کی، پھر واپس جانے لگیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اُن کو رخصت کیا۔ [4]
13: جس بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیویاں جمع تھیں۔ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنھا نے کہا: اللہ کی قسم،اے اللہ کے نبی! کاش آپ کی بیماری مجھ میں منتقل ہو جاتی، تو دوسری امہات المؤمنین نے انہیں ٹھونکے لگا کر ایسی بات کرنے سے منع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ایسا کرتے دیکھ لیا اور فرمایا: تم سب کُلّی کرکے اپنے منہ صاف کر لو۔ انہوں نے پوچھا: کس چیز سے ہم کلّی کریں اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بات تم نے صفیہ کے بارے میں کہی ہے اُس سے ،اللہ کی قسم، صفیہ سچی ہے۔ [5]
کتبِ احادیث کا مطالعہ کرنے سے امہات المؤمنین اور بالخصوص سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے ذریعہ مروی بہت سی احادیث میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے علاوہ عام نوافل کا اُن کے گھروں میں کتنا زیادہ اہتمام کرتے تھے، اور تہجد کی نماز کبھی طویل ہوتی اور کبھی مختصر، اور ان نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور ابتہال کرتے اور گڑگڑاتے تھے، اور رات کی نمازوں میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپؐ کے دونوں پاؤں متورم ہو جاتے تھے۔ یہ سب دیکھ کر ایک بار عائشہ رضی اللہ عنھا نے
|