اِنہوں نے اسلام کی بہت ساری تعلیمات کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا، چنانچہ اِن سے مروی احادیث کی تعداد دو ہزار دو سو دس (2210) تک پہنچتی ہے۔
سیّدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی اَحادیث کی تعداد تین سو اٹھتر (378) ہے۔ اور میمونہ رضی اللہ عنھا نے چھہتّر (76) حدیثیں روایت کی ہیں، اور اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنھا نے پینسٹھ (65) اور حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنھما نے ساٹھ (60) اور زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا نے نو (9) حدیثیں روایت کی ہیں، اور سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنھا نے دس (10) اور تقریباً یہی بات دیگر ازواجِ مطہرات کی بھی تھی۔ اور اِن حدیثوں کی حیثیت احکام وشرائعِ اسلام اور عقیدہ ومبادیٔ اسلامیہ کی تعلیم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی تھی۔
حافظ ذہبی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں لکھتے ہیں: کہ وہ اکابرِ فقہائے صحابہ میں سے تھیں، فقہائے صحابہ بسا اوقات اِن کی طرف رجوع کرتے تھے۔ قبیصہ بن ذؤیب کہتے ہیں: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس سب سے زیادہ علم تھا، اکابر صحابہ اِن سے پوچھتے تھے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم صحابۂ رسول اللہ کو جب بھی کسی حدیث کے سلسلہ میں کوئی مشکل پیش آتی تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف رجوع کرتے اور اُن کے پاس اس کے بارے میں ضرور علم ہوتا جس سے وہ ہمیں مستفید کرتیں۔ اور حسّان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے زیادہ کسی کے پاس قرآن کا علم، احکامِ شرعیہ اور حلال وحرام کا علم، اور شعرو روایاتِ عرب اور نسب کا علم نہیں پایا۔ [1]
5: تعدّدِ ازواجِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بہت بڑی حکمت ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سارے عالم کے لیے بشیر ونذیر بناکر مبعوث فرمایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے عہد میں مبعوث ہوئے تھے جس میں انسانیت خودکشی کی راہ پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھی جا رہی تھی۔ انسان اپنے خالق کو فراموش کر چکا تھا، اور اپنے آپ سے اور اپنے انجام سے بے خبر ہو چکا تھا۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایا تاکہ آپ تاریکی کا خاتمہ کر دیں اور دنیا کو نور وہدایت سے بھر دیں، اور توحیدِ خالص اور دینِ اسلام کی تعلیمات کو چہار دانگِ عالم میں پہنچائیں، تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت اپنے خالق کی طرف رجوع کرے، اور آدم علیہ السلام کے بیٹے اللہ کے نیک بندے بن کر دنیا کو بھلائی اور نیکی کے ذریعہ آباد کریں۔
اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی تھے، اور دینِ اسلام اللہ کا آخری دین، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ تھے تاکہ ابن آدم کو کسی دوسرے رہنما اور مُصلح کی ضرورت نہ پڑے، اور ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آئیڈیل اور نمونہ ہونے کی شہادت وہ لوگ دیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا ربط وتعلق تھا۔ اور بیوی سے زیادہ کسی کا بھی گہرا ربط وتعلق نہیں ہوتا۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیٔ خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی، اور اِن بیویوں کو نبی کے گھر میں داخل کر دیا تاکہ یہ نہایت قریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی اور خانگی زندگی کو دیکھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرم نوازی، شرافت نفسی، رأفت ورحمت، اپنے رب کی جناب میں غایت درجہ خشوع وخضوع، رِقّت وعبادت اور تذلّل وتضرع اور راتوں کو
|