Maktaba Wahhabi

693 - 704
’’اور جب آپ اس شخص سے کہتے تھے جس پر اللہ نے احسان کیا اور آپ نے بھی اس پر احسان کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو، اور اللہ سے ڈرو، اور آپ اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا، اور آپ لوگوں سے خائف تھے، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار تھا کہ آپ اس سے ڈرتے، پس جب زید نے اس سے اپنی ضرورت پوری کر لی، تو ہم نے اس سے آپ کی شادی کر دی، تاکہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے شادی کرنے میں کوئی حرج باقی نہ رہے، جب وہ منہ بولے بیٹے ان بیویوں سے اپنی ضرورت پوری کر لیں، اور اللہ کے فیصلے کو بہر حال ہونا ہی تھا،نبی کے لیے اس کام کو کر گزرنے میں کوئی حرج نہیں جسے اللہ نے ان کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ ‘‘ اس شادی کے ذریعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ منافقین اور مشرکین ویہود کے لیے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی کو بیٹا بنا لینے سے اسلام کے احکام نہیں بدل جاتے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے اتنی بیویاں حلال کی ہیں جو دیگر مسلمانوں کے لیے حلال نہیں کی گئی ہیں، اُن اغراض اور حکمتوں کے سبب جن میں سے بعض کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ 4 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تعدّدِ اَزواج کو حلال کرنے کے اہم مقاصد میں سے یہ بھی تھا کہ یہ بیویاں نبی کے گھر میں داخل ہوکر اسلامی عقیدہ اور شریعتِ اسلامیہ کا علم حاصل کریں تاکہ اُن کے ذریعہ وہ علوم امت میں پھیلیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ عقلمند اور صالحہ مسلمان عورتوں کی ایک جماعت نبی کے گھر میں داخل ہو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی تربیت کریں، انہیں اسلامی شرائع اور احکام کی تعلیم دیں، اُن کا تزکیہ کریں اور مدرسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فارغ ہوکر مسلمان عورتوں اور دیگر صحابہ کرام کو وہ احکام ومسائل سکھائیں جن کا تعلق عورتوں سے ہے، انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نجی سلوک وبرتاؤ کی باتیں بتائیں، انہیں بتائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج ،بچیوں، نواسوں اور غلاموں سے کیسا معاملہ کرتے تھے، نیز بہت سے ایسے احکام ومسائل جنہیں بیویوں کے سوا کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ یہ امہات المؤمنین مسجدِ نبوی کے جوار میں اپنے چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہتی تھیں، پانچوں نمازوں کی اذانیں سنتی تھیں، صحابہ کرام کو آتے جاتے دیکھتی تھیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنتی تھیں، اور اپنے گھروں میں اسلامی تعلیمات کا بالعموم اور عورتوں سے متعلق تعلیمات کا بالخصوص علم حاصل کرتی تھیں۔ اس طرح ان امہات المؤمنین کی دعوت الی اللہ کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے تربیت ہوتی رہی، اور تبلیغِ دین اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے کی اہلیت اُن میں پیدا ہوتی رہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات اور جنگی اسفار میں جاتی رہیں۔ وہاں یہ اللہ کی نیک بندیاں زخمیوں کا علاج کرتیں، مریضوں کی تیمار داری کرتیں، بھلائی کا سب کو حکم دیتیں، اور پریشانی کے وقت مجاہدین کی ڈھارس بندھاتیں۔ مختصر یہ کہ دین کا تقریباً ایک تہائی حصہ اِن امہات المؤمنین کے ذریعہ محفوظ ہوا جس کا تعلق بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی اور ازدواجی زندگی سے تھا۔ صحابہ کرام کو یہ علم انہیں مؤمنات صالحات کے ذریعہ حاصل ہوا۔ اِن میں خاص طور پر امّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنھا کا مقام عالی ہے جو غایت درجہ ذہین وفطین تھیں۔
Flag Counter