اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ اور جویریہ رضی اللہ عنھما سے اس لیے شادی کی کہ اُن کے آنسو پونچھیں، اُن کے شوہروں کی وفات سے انہیں جو غم لاحق ہوا تھا اس کا مداوا کریں۔ حُیَيْ بن اخطب (صفیہ کا باپ) اس لیے قتل کیا گیا تھا کہ وہ سرزمین پر اسلام اور مسلمانوں کا بد ترین دشمن اور اللہ کی نگاہ میں اکابرِ مجرمین میں سے تھا۔
3 : زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اُمَیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی تھیں، اُن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی اس لیے کی کہ عہدِ جاہلیت میں منہ بولا بیٹا بنانے کی عادت کا خاتمہ کیا جائے۔ اس لیے کہ عہدِ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک منہ بولے بیٹے کو صُلبی بیٹے کی طرح تمام حُرمتیں اور حقوق حاصل ہوتے تھے، دونوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ انہی حُرمتوں میں سے متبنی کی بیوی سے شادی کی حرمت تھی۔ او ریہ نظریہ لوگوں کے دلوں میں ایسا جڑ پکڑ چکا تھا کہ اس کا بدلنا آسان نہ تھا۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس فاسد اور قبیح عادت کا ابطال کرنا چاہا اس لیے کہ یہ اسلام کے ان اصول ومبادی کے مخالف تھا جنہیں شریعتِ اسلامیہ نے نکاح وطلاق اور میراث کے سلسلہ میں مسلمان خاندانوں کے حفظ وبقاء کے لیے مقرر کر دیا ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ سے شادی کر لیں جنہیں اُن کے شوہر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی تھی جو اسلام آنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ امرِ الٰہی شاق گزرا (حالانکہ وہ پہلے سے بذریعہ وحی واقف تھے کہ یہ شادی ہو کر رہے گی) اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشری مزاج کے مطابق ڈرتے تھے کہ منافقین اور مشرکینِ یہود اس خبر کو لے اُڑیں گے، اور لوگوں میں خوب پھیلائیں گے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے متبنّی کی بیوی سے شادی کر لی ہے، اور یہ کہ وہ پہلے سے ہی اُس عورت پر ریجھا ہوا تھا، اور یہ کہ محمد نے ہی زینب کو زید کی نافرمانی پر اُکسایا تھا تاکہ وہ مجبور ہو کر اسے طلاق دے دے، اور اس سے شادی کرنے کے لیے فضا ہموار ہو جائے۔ اور ان باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور نیک شہرت کو نقصان پہنچے گا۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں اللہ کی اطاعت وبندگی کے سوا کچھ بھی نہ تھا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ شادی واجب کر دی تھی، بلکہ اللہ نے خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی زینب سے سات آسمانوں کے اوپر کر دی تاکہ عربوں کی سوسائٹی سے اس جاہلی عادت کا خاتمہ ہو، جس کے سبب اصحابِ حقوق ورثہ محروم ہو جاتے تھے اور متبنی وارث بن بیٹھتا تھا، اور آدمی ایک ایسی عورت کو اپنے نکاح میں نہیں لا سکتا تھا جو اس کے لیے حلال تھی اس زعمِ باطل کے سبب کہ یہ تو اُس کے متبنی کی بیوی رہ چکی ہے۔
اس حقیقت کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں فرمائی ہے:
((وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴿37﴾ مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّـهُ لَهُ ۖ))
[الأحزاب:37-38]
|