خواہش کی تکمیل نہیں تھی جیسا کہ میں ابھی اوپر لکھ آیا ہوں، بلکہ اس کے پیچھے بلند دعوتی اَغراض اور عظیم اسلامی مقاصد تھے، اور مقصدِ اول توحیدِ خالص اور دینِ اسلام کی طرف دعوت کی تقویت تھی۔
سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا جب وفات پاگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیوں اور دیگر رشتہ داروں نے جو مشرکوں کی شدید عداوت اور ان کے بغض وسازش کے سبب آپ کی حالت پر ترس کھاتے تھے، سوچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری شادی کرلینی چاہیے جو آپؐ کا خیال کرے اور آپؐ کی دلدہی کرتی رہے، اور ہجومِ غم واَلم کے وقت جس کے پاس آپ تھوڑی دیر سکون حاصل کریں، جیسا کہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاملہ تھا۔ چنانچہ سب نے مل کر ایک بیوہ عورت کا انتخاب کیا جن کا شوہر بحیثیت مسلمان مہاجر حبشہ میں وفات پاگیا تھا۔ اُن کا نام سودہ بنت زمعہ قرشیہ رضی اللہ عنھا تھا۔ انہیں بھی ایک شوہر کی ضرورت تھی جن کے پاس وہ پناہ لیتیں اور سکون حاصل کرتیں۔
انہی جیسے بلند مقاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام امہات المؤمنین کے ساتھ شادی کے پیچھے کار فرما تھے۔ ذیل میں اُن مخصوص اسباب اور حکمتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں:
1 : عربوں کی عادتِ حسنہ تھی کہ وہ ازدواجی رشتوں کا بڑا پاس ولحاظ رکھتے تھے، اور سسرالیوں کی مخالفت اور دشمنی کو گالی اور عار سمجھا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینِ اسلام کی بہتری کے لیے اس قبائلی عادت سے استفادہ کرنا چاہا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ بنت ابو بکر رضی اللہ عنھما اور سیّدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنھما سے شادی کی، اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شادی سیّدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے کی،اور اپنی بیٹی سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور اُن کے انتقال کے بعد اپنی بیٹی سیّدہ اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی عثمان بن عفان رضی اللہ عنھما سے اسی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے کی، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اِن چاروں کبارِ صحابہ سے ہمیشہ کے لیے استوار ہو جائیں جن کا اخلاص اور اسلام کے لیے فدائیت اسلام کے روزِ اول سے مشہور تھی۔
سیّدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنھا سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شاید انہی مقاصد عظمیٰ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کی تھی، اس لیے کہ وہ قبیلۂ مخزوم کی تھیں جن سے خالد بن ولید اور ابو جہل کا تعلق تھا۔
سیّدہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا مقصدِ اوّل غالباً یہی کچھ تھا۔ اس لیے کہ وہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں جو اللہ اور اُس کے رسول کا بدترین دشمن تھا، اور جب اس کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیٹی اُمّ حبیبہ سے شادی کرلی ہے تو اُس کی عداوت کی آگ دھیمی پڑ گئی۔
اور بنو مصطلق کی جویریہ رضی اللہ عنھا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں آزاد کرنے کے بعد شادی کرلی، اللہ کی مشیت کے بعد بنی مصطلق کو اسلام سے قریب کرنے کی بڑی سبب بنیں، اس لیے کہ صحابہ کرام نے جب سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ایک لڑکی سے شادی کر لی ہے تو بنو مصطلق کے تقریباً سو گھروں کے افراد کو آزاد کر دیا جو غزوہ بنی مصطلق کے بعد گرفتار ہو گئے تھے۔ اور اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ اسلام کی محبت تمام بنو مصطلق کے دلوں میں گھر کر گئی۔
2 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ حبیبہ، امّ سلمہ، میمونہ اور زینب امّ المساکین رضی اللہ عنہن جیسی بیواؤں سے شادی اس لیے کی تاکہ انہیں اپنے سایۂ عاطفت میں جگہ دیں، اُن کے آنسو پونچھیں، اور اُن کی دیکھ بھال کریں۔
|