Maktaba Wahhabi

666 - 704
کھڑے ہوگئے، اور فرمایا: بطنِ عُرنہ کے سوا پورا عرفہ وقوف کی جگہ ہے، اور لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ وہ سب بھی عرفہ میں وقوف کریں۔ اسی حالتِ وقوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی((الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا))’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی، اور اسلام کو بحیثیت دین تمہارے لیے پسند کرلیا۔ ‘‘ [المائدہ:3] عرفہ میں اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لاکھ چودہ ہزار مسلمان موجود تھے، بعض نے اس سے زیادہ تعداد بتائی ہے، یعنی ایک لاکھ بیس ہزار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر میدانِ عرفہ میں رہے یہاں تک کہ اُس دن کا آفتاب غروب ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھا رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس آنے کے لیے چل پڑے، اور اپنی اونٹنی کی لگام اس طرح کھینچ رہے تھے کہ اُس کا سر کجاوہ کے کنارہ کو چُھو رہا تھا۔ اور اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرکے کہہ رہے تھے: لوگو! پُر سکون رہو، پُرسکون چلو، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچ گئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو اقامت سے پڑھی، اور دونوں کے درمیان کوئی تسبیح نہیں پڑھی، پھر لیٹ گئے اور وہیں رات گزاری۔ جب صبح کا وقت قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزوروں یعنی بچوں اور عورتوں کو اجازت دے دی کہ وہ لوگوں کی بھیڑ سے پہلے منیٰ پہنچ جائیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ آفتاب نکلنے سے پہلے کنکری نہ ماریں۔ جب فجر کے آثار نمایاں ہوئے اور صبح ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول وقت میں لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی، وہ دن عید کا دن، قربانی کا دن، حجِ اکبر کا دن، اور ہر مشرک سے اللہ اور اُس کے رسول کی جانب سے اعلانِ براء ت کا دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے، مشعرِحرام کے پاس آئے، قبلہ کی طرف رخ کیا، اور دعا، خشوع وخضوع، تکبیر وتہلیل اور ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ خوب اُجالا ہوگیا، تو طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی منیٰ کے لیے روانہ ہوگئے، اور اپنے پیچھے فضل بن عباس رضی اللہ عنھما کو بیٹھا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل تلبیہ پکارتے رہے۔ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدل چل پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کو حکم دیا کہ وہ آپ کے لیے سات کنکریاں چُن لیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادیٔ مُحسّرپہنچے تو اپنی اونٹنی کو مہمیز لگائی اور تیزی میں آگے بڑھ گئے، اور درمیانی راستہ سے چل کر جمره کبریٰ تک پہنچ گئے جسے جمره عقبہ کہا جاتا ہے۔ وہاں آپ وادی کے نچلے حصہ میں کھڑے ہوئے، اور منیٰ کو اپنے دائیں طرف اور بیت اللہ کو اپنے بائیں طرف کیا، اور سواری پر بیٹھ کر ہی جمرہ کی طرف رُخ کرکے طلوعِ آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں، یکے بعد دیگرے، اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے۔ کنکری مارنے سے پہلے آپؐنے تلبیہ پکارنا بند کر دیا تھا۔ اُس وقت بلال واسامہ رضی اللہ عنھما بھی آپ کے ساتھ تھے، ایک نے اونٹنی کی مہار پکڑ رکھی تھی اور دوسرے نے آپؐ کے سر پر کپڑے سے سایہ کر رکھا تھا۔ [1] کنکری مارنے کے بعد آپ منٰی واپس آگئے، اور لوگوں کے سامنے نہایت بلیغ خطبہ دیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن کی حُرمت، اللہ کے نزدیک اس کی فضیلت اور مکہ مکرمہ کی تمام دنیا پر فضیلت کو بیان فرمایا، اور صحابہ کرام کو اس سردار کی
Flag Counter