ساتوں چکّروں میں حجر اَسود کے پاس مزاحمت نہیں کی۔ تین ابتدائی چکّروں میں آپ جھٹک کر چلے اور باقی چاروں میں عام رفتار سے چلے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغل کے نیچے سے گزر کر دائیں کندھے پر پڑی تھی۔ دورانِ طواف آپؐ نے کوئی معیّن ذکر نہیں پڑھا، صرف دونوں رُکنوں کے درمیان: { رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ } پڑھتے تھے۔ [1]
طواف سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ ابراہیم پر آئے، اور اُسے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کرکے اپنی اونٹنی کو بٹھا دیا، اور ((وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ)) [البقرۃ: 125] کی تلاوت کی، پھر دو رکعت نماز پڑھی جِن میں سوره فاتحہ کے بعد ((قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ))اور ((قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ))پڑھا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حجرِ اَسود کے پاس گئے، اس کا استلام کیا، اور پھر صفا پہاڑی کی طرف اس کے سامنے والے دروازہ سے چل پڑے اور جب اس کے قریب پہنچے توسورۃ البقرۃ کی آیت (158) ((إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ)) کی تلاوت کی اور فرمایا: میں اپنی سعی اسی جگہ سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ نے اس آیت کی ابتدا کی ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سعی کی ابتدا صفاپہاڑی کے اوپر سے کی، آپؐ اُس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ نظر آنے لگا، قبلہ کا رُخ کیا، اللہ کی توحید بیان کی، تکبیر کہی اور کہا: (( لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ ، اَنْجَزَ وَعْدَہُ ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْاَحْزَابُ وَحْدَہُ۔))پھر آپ نے دعا کی اور اسی طرح تین بار کہا۔ پھر مروہ کی طرف چلتے ہوئے اترے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قدم وادی کے نشیبی علاقہ میں پڑے تو جھٹک کر چلنے لگے، اور جب وادی سے اوپر چڑھے تو عام رفتار سے چلنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ پر آگئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسا ہی کیا جیسا صفا پر کیا تھا، اور اس طرح صفا اور مروہ کے درمیان سات چکّر لگائے۔ [2]
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری چکّر لگا کر مروہ پر پہنچے تو فرمایا: مجھے جو بات اب معلوم ہوئی ہے اگر پہلے معلوم ہوگئی ہوتی تو قربانی کا جانور لے کر نہ آتا، اور نہ عمرہ کی نیت کی ہوتی۔ [3] پس تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور لے کر نہیں آیا ہے وہ حلال ہوجائے اور اس طواف وسعی کو عمرہ بنالے۔ یہ سن کر سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا: کیا یہ حکم اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر دو بار فرمایا: عمرہ حج میں داخل ہوگیا، ہمیشہ کے لیے۔
اِن کاموں سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ اَبطح میں اپنی رہائش پر گئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
|