قریب پہنچے تو اُن سب کے لیے جو قربانی کا جانور لے کر نہیں چلے تھے یہی افضل سمجھا کہ وہ حجِ اِفراد اور حجِ قِران کو عمرہ میں بدل دیں۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کے نزدیک پہنچے تو ایسے تمام صحابہ کے لیے اس حکم کو حتمی قرار دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحلیفہ سے تلبیہ پکارتے ہوئے آگے بڑھے، اور صحابہ بھی تلبیہ کہتے رہے۔ کبھی ان الفاظ میں اضافہ کرتے اور کبھی کمی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے، انکار نہیں کرتے۔ [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل تلبیہ پکارتے رہے یہاں تک کہ مقامِ روحاء پر پہنچ گئے جو مدینہ سے دو مرحلہ کی مسافت پر ہے، آپؐ کا سفر جاری رہا یہاں تک کہ قُدید کے مقام پر پہنچ گئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے ہودج میں ایک چھوٹا بچہ لیے بیٹھی تھی، اُس نے اس بچے کا بازو پکڑ کر کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اِس کا حج ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اجر تمہیں ملے گا۔ [2]
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر قبیلۂ خثعم کی ایک عورت کے پاس سے ہوا، اُس نے پوچھا: اللہ کا فریضہ حج میرے باپ پر واجب ہوگیا ہے جبکہ وہ بڑے بوڑھے ہیں، سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ مقامِ سرف میں رُکے۔ وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے وہ چاہے تو صرف عمرہ کی نیت کر لے، اور جس کے پاس ہے وہ ایسا نہ کرے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو جو لوگ قربانی کے جانور لے کر نہیں گئے تھے انہیں حتمی حکم دیا کہ وہ اپنی نیت کو عمرہ کی نیت میں بدل لیں، اور عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دیں، اور جو لوگ قربانی کے جانور لے کر آئے ہیں وہ عمرہ کے بعد احرام نہ کھولیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اِسی مقامِ سرف میں ہی تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو ماہواری آگئی، انہوں نے عمرہ کی نیت کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا: شاید تمہیں ماہواری آگئی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ بات بنی آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دی ہے، تم حاجیوں کی طرح سب کام کرو، صرف بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔ [3]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرف ہی میں تھے کہ آفتاب غروب ہوگیا، وہاں سے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ طُویٰ پر پہنچ گئے جو اِن دنوں ’’ زاہر کے کنویں‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات گزاری، اُس وقت ذی الحجہ کے چار دن گزر چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز وہیں ادا کی، اور دن چڑھنے پر وہاں غسل فرمایا، اور آگے چل پڑے اور دن کے وقت مکہ میں اس بالائی علاقہ سے داخل ہوئے جو حُجون کے اوپر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ حرام میں داخل ہوتے ہی بیت اللہ کا قصد کیا اور اپنی جوان اونٹنی پر خانۂ کعبہ کا سات بار طواف کیا، اور ہر بار جب حجر اَسود کے سامنے آتے تو اپنی چھڑی کے ذریعہ اس کا استلام کرتے (چُھوتے) اور چھڑی کو چوم لیتے، اور
|