حجۃالودَاع
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرتِ مدینہ کے بعد صرف ایک حج، حجۃ الوداع سن 10ہجری میں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کا ارادہ فرمایا تو لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ آپ حج کے لیے نکلنے والے ہیں، اور سب کو اپنے ساتھ حج کے لیے چلنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ تمام صحابہ کرام آپؐ کے ساتھ سفر کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اور مدینہ منورہ کے آس پاس کے رہنے والوں نے بھی یہ اعلان سنا اور مسلمانوں کا ایک جم غفیر جمع ہوگیا، سب کی خواہش یہی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اس لیے آپ کے دائیں بائیں حدّ نگاہ تک انسان ہی انسان تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سب کی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس سے زیادہ تعداد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے ایسے مسلمانوں نے بھی حج کیا جنہوں نے آپؐ کو اس سفر سے پہلے نہیں دیکھا تھا، اور نہ پھر بعد میں دیکھا، لیکن ان سب کو آپؐ کی صحبت کی فضیلت حاصل ہوگئی۔
اس سفر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کا والی ابو دجانہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بنا دیا، اور پچیس ذی القعدہ ہفتہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن نکلے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر سے پہلے خطبہ دیا جس میں احرام اور اس کے واجبات وسُنن کی تعلیم دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن بھی ہودجوں میں سوار ہوکر نکلیں۔ عصر کی نماز آپؐ نے دو رکعت ذو الحلیفہ میں پڑھی، وہیں رات گزاری، اور مغرب، عشاء، فجر اور دوسرے دن ظہر کی نماز وہیں پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازیں وہیں ادا کیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی نیت کرنے کے لیے یہیں غسل فرمایا۔ [1] پھر عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے ہاتھ سے ایک مخلوط خوشبو جس میں مُشک شامل تھا، آپؐ کے جسم اطہر اور سرِ مبارک پر لگا دی، مُشک کا اثر آپؐ کے سر کے بال اور داڑھی پر عیاں تھا۔ [2] اُسے آپؐ نے زائل نہیں کیا اور نہ دھویا۔ آپؐ نے پھر احرام کی دو چادریں لیں، ایک کو پہن لیا اور دوسرے کو اوڑھ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر مصلّی ہی سے حج وعمرہ کی نیت کی، کسی نے آپؐ کے بارے میں یہ بات نقل نہیں کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعت کے علاوہ احرام کے لیے الگ سے دو رکعت پڑھی۔ اور آپؐ نے اپنے ہدی کے جانور کو اپنے دو جُوتوں کا ہار پہنا دیا، اور اس کے دائیں پہلو میں ہلکا زخم لگا دیا جس سے خون نکل پڑا۔ پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے اور مندرجہ ذیل تلبیہ پُکارنے لگے: (( لَبَّیْک اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ۔)) لوگوں نے بھی یہی تلبیہ پکارنا شروع کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً بیس سے زائد صریح وصحیح احادیث کے مطابق حج قِران کی نیت کی، اور صحابہ کرام کو احرام کی نیت کرتے وقت تینوں قسم کے حج (حجِ اِفراد، حجِ قِران اور حجِ تمتع) کے درمیان اختیار دیا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے
|