Maktaba Wahhabi

220 - 704
تیسرے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ عمر عہدِ جاہلیت میں شراب کو پسند کرتے تھے اور اسے پیتے تھے، ایک رات وہ الخرورہ کے بازار میں اپنے ہم پیالہ دوستوں سے ملنے گئے تو وہاں انہیں کوئی نہ ملا، وہاں سے پھر ایک شراب بیچنے والے کی تلاش میں گئے تو وہ بھی نہ ملا، وہاں سے چل کر طواف کرنے کے لیے کعبہ پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکنِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان کھڑے اپنی عادت کے مطابق نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہ حِجر کی طرف سے کعبہ کے پردہ کے اندر داخل ہوکر آہستہ آہستہ چلتے چلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن کریم سننے لگے، جس کا ان کے دل پر بڑا گہرا اثر پڑا، پھر وہ رونے لگے اور اسلام میں داخل ہوگئے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے ہولیے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دارِ عباس اور دار ابن ازہر کے درمیان جاپایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آمد کا احساس ہوا اور انہیں پہچان لیا، تو پوچھا: اے ابن الخطاب! اس وقت تم میرے پاس کس لیے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: میں اللہ اور اس کے رسول پر اور دینِ اسلام پر ایمان لے آیا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف بیان کی اور اس کا شکر ادا کیا ، پھر آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کے سینے پر ہاتھ پھیرکران کے لیے اسلام پر ثابت قدمی کی دعا کی۔ چوتھے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ ایک رات اپنے بعض گھریلو حالات کے سبب گھر سے نکل کر مسجدِ حرام میں رات گزارنے کے لیے گئے، چونکہ سردی زیادہ تھی، اس لیے کعبہ کے پردے کے اندر داخل ہوگئے، اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور حِجر میں نماز پڑھنے لگے۔ پھر واپس لوٹنے لگے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کوئی ایسی چیز سُنی جسے انہوں نے کبھی نہیں سنا تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگ گئے۔ آپ نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا: عمر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے عمر! تم مجھے رات اور دن میں کسی وقت نہیں چھوڑوگے۔ عمر رضی اللہ عنہ کو ڈر ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بددعا نہ کردیں۔ اس لیے فوراً کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے عمر! ابھی اس بات کو تم چھپاؤ۔ انہوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کودینِ حق کے ساتھ بھیجاہے! میں اس کا اسی طرح اعلان کروں گا جس طرح شرک کا اعلان کرتا تھا۔ مندرجہ بالا چاروں اقوال میں قابلِ ملاحظہ بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے خیر چاہی توانہیں قرآنِ کریم سننے کا موقع فراہم کیا، جس سے وہ متأثر ہوئے ، اور ان کے دل میں اسلام داخل ہوگیا، پھر اس کا سب کے سامنے اعلان کردیا، جس سے سارے لوگ ان کے خلاف برانگیختہ ہوگئے اور وہ صبح تک ان لوگوں کے ساتھ جدال وقتال کرتے رہے ، پھر مسلمانوں کے ساتھ مل کر دو صفوں میں مسجد حرام پہنچے، ایک صف کے آگے حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری کے آگے وہ خود۔ اور وہاں سب نے نماز پڑھی، اسی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام فاروق رکھ دیا۔ [1] دوسری قابلِ ملاحظہ بات یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے اندرون میں بہت پہلے سے اپنے آباء واجداد کے دین اور اُس دین کے درمیان سخت مزاحمت شروع ہوگئی تھی، جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بلارہے تھے، یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت اور
Flag Counter