Maktaba Wahhabi

219 - 704
حلقہ بنائے بیٹھے تھے ، ان کے سامنے اسلام کا اعلان کرنے لگے اور گواہی دینے لگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں تو مشرکین بپھرگئے اور انہیں مارنے لگے اور وہ بھی ان لوگوں کو مارنے لگے، جب لوگوں نے ان کی بہت زیادہ پٹائی کردی تو ایک آدمی (یعنی عاص بن وائل سہمی) نے انہیں ان سے نجات دلائی۔ [1] سیرتِ نبوی کے کبار مؤلفین (محمد بن اسحاق، بیہقی، ابن سید الناس اور ابن کثیر)نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے سبب سے متعلق چار اقوال نقل کیے ہیں جو اگرچہ بعض تفصیلات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن اُن تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ جس چیز نے عمر رضی اللہ عنہ کو قبولِ اسلام کی طرف مائل کیا وہ اُن کا قرآنِ کریم سننا تھا جس نے اُن کے وجود کو ہلادیا، اور ان کے دل میں انقلاب پیدا کردیا۔ قولِ اوّل کا خلاصہ یہ ہے کہ ابوجہل نے کہا: جومحمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کرے گا اسے میں سو(100) سُرخ اور سیاہ اونٹ اور ایک ہزار اُوقیہ چاندی فوراً دوں گا۔ اس کے لیے عمر رضی اللہ عنہ تیار ہوئے اور ابو جہل کے اس وعدے پر ہُبل بُت کو گواہ بنایا اور تلوار لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑے، راستے میں انہو ں نے ایک غیبی آواز سُنی کہ ایک فصیح آدمی لاإلہ إلا اللہ اور محمد رسول اللہ کی شہادت کی دعوت دے رہا ہے ، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دل میں سوچا کہ اس آواز سے مقصود میں ہوں ، پھر وہ ایک بُت کے پاس سے گُزرے تو وہاں ایک غیبی آواز کے ذریعہ ایک شعر سُنا جس کے معنی یہ تھے کہ رحمن نے ایک امام کو بھیجاہے جو کفر کے بعد اسلام، نماز ، زکاۃ، روزہ، بھلائی اور صلہ رحمی جیسی اچھی باتیں لے کر آیا ہے۔عمر نے اپنے دل میں کہا : اللہ کی قسم! اس سے بھی مقصود میں ہی ہوں ۔ پھر وہ آگے بڑھے تو ایک دوسرا شعر سُنا، جس میں عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا جا رہا تھا: تم اس دینِ اسلام کے ناصر ہو، جسے ابن مریم علیہ السلام کے بعد محمدؐ لے کر آئے ہیں ، یہ سن کر بھی عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دل میں کہا: اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ میں ہی مقصود ہوں ، اس کے بعد وہ اپنی بہن کے گھر میں داخل ہوئے ، وہاں انہو ں نے خباب ابن الارت اور اپنے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو پایا، پھر وہاں سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دارِ ارقم میں پہنچے اور اپنے اسلام کا اعلان کردیا۔ دوسرے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ عمر نے اپنی بہن اور اپنے بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی بات سُنی تو ان کے پاس پہنچ گئے اور سعید رضی اللہ عنہ کے سرکو زخمی کر دیا، پھر بہتا خون دیکھ کر متأثر ہوئے اور اپنی بہن سے قرآن دکھلانے کو کہا۔ انہو ں نے کہا: اس کتاب کو صرف پاکیزہ لوگ چھوتے ہیں ، عمر رضی اللہ عنہ نے غسل کیا اور اس مصحف کو لے کر پڑھنے لگے جو ان دونوں کے پاس تھا، اللہ نے ان کے اسلام کے لیے ان کا شرح صدر کردیا، پھر وہاں سے چل کر دارِ ارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کے سامنے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، دارِ ارقم میں موجود تمام مسلمانوں نے یکبارگی اتنی بلند آواز سے تکبیر کہی کہ مسجدِ حرام میں موجود تمام لوگوں نے اُسے سُنا، پھر مسلمان اپنی دو صفیں بناکر چلتے ہوئے مسجدِ حرام تک پہنچے، ایک صف کے آگے حمزہ رضی اللہ عنہ اوردوسری کے آگے عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور قریشیوں نے عمر اور حمزہ رضی اللہ عنھما کو دیکھا تو انہیں ایسی تکلیف پہنچی جیسی کبھی نہیں پہنچی تھی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن سے ان کا نام فاروق رکھ دیا ، اس لیے کہ انہوں نے حق وباطل کے درمیان تفریق کردی تھی، اور اس کا برملا اعلان کردیا تھا۔
Flag Counter