روایت کی ہے کہ سیّدنا خباب رضی اللہ عنہ ایک بار سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہو ں نے کہا: میرے قریب بیٹھو، اللہ کی قسم! عمار رضی اللہ عنہ کے سوا تم سے زیادہ کوئی اس مجلس کا حقدار نہیں ہے ۔ سیّدنا خباب رضی اللہ عنہ انہیں پیٹھ کھول کر جلائے اور مارے جانے کے آثار دکھانے لگے۔ [1]
سیّدنا خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں پیشہ کے اعتبار سے لوہار تھا ، اور عاص بن وائل کے ذمہ میرا کچھ قرض تھا، میں نے اس سے اس کا مطالبہ کیا ، تو کہنے لگا: اللہ کی قسم ! میں تمہارا قرض نہیں چکاؤں گا،یہاں تک کہ تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار کردو، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں محمد کا انکار نہیں کروں گا، یہاں تک کہ تم مرجاؤ اور پھر دوبارہ اٹھائے جاؤ۔ اس نے کہا: اگر میں مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھایا گیا تو آنا، میرے پاس بہت سا مال اور اولاد ہوگی، میں تمہیں تمہارا قرض چُکادوں گا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں:
((أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا (77) أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا (78) كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا (79) وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا)) [مریم:77-80]
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کہ یقینا مجھے (آخرت میں بھی) مال اور اولاد ملے گی، کیا وہ غیب کی خبر رکھتا ہے، یا اُس نے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے، ہرگز نہیں (دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہے) وہ جو کہہ رہا ہے ہم لکھ رہے ہیں، اور اس کے لیے ہم عذاب کو خوب بڑھادیں گے، اور وہ جس مال واولاد کی بات کررہا ہے ، اُسے ہم واپس لے لیں گے، اور وہ تنہا ہمارے سامنے آئے گا۔‘‘[2]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انہی ابو لیلیٰ کِندی سے روایت کی ہے کہ میں ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنائے لیٹے ہوئے تھے ، ان دنوں ہم مشرکین کی طرف سے بہت سختی اور آزمائش میں پڑے ہوئے تھے۔ میں نے کہا: کیا آپ اللہ سے دعا نہیں کریں گے؟ تو آپ بیٹھ گئے، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہورہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے کے لوگوں میں سے جو مسلمان ہوئے ان کے گوشت اور پٹھوں کو ان کی ہڈیوں سے الگ کر دیا جاتا تھا، لیکن وہ دین سے پھرتے نہیں تھے، اور ان کے سروں پر آری رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے تھے، لیکن وہ اپنے دین سے نہیں پھرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یقینا اس دین کو تمام وکمال تک پہنچائے گا ، یہاں تک کہ مسافر صنعاء سے حضرموت جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا، لیکن تم لوگ جلدی کر رہے ہو۔ [3]
|