ابو جہل کو جب ولید بن مغیرہ کے بارے میں خبر ملی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا تو اس پر رقت طاری ہوگئی ہے تو اس سے کہا: اے چچا! آپ کی قوم آپ کے لیے بہت سارا مال جمع کرناچاہتی ہے ، اس لیے کہ آپ محمدؐ کے پاس اس غرض کے لیے گئے تھے ۔ ولید نے کہا: قریش کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ میںان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ، ابوجہل نے کہا: پھر آپ اپنی قوم کو ایسی بات کہلا بھیجئے جس سے وہ سمجھیں کہ آپ اس کی دعوت کے منکر ہیں یا اسے ناپسند کرتے ہیں ۔ ولید نے بہت سوچنے کے بعد کہا: یہ کوئی جادو ہے جو لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے، جس کے بعد یہ آیتیں نازل ہوئیں:
((ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا ﴿11﴾ وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا ﴿12﴾ وَبَنِينَ شُهُودًا ﴿13﴾ وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيدًا ﴿14﴾ ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ ﴿15﴾ كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا ﴿16﴾ سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ﴿17﴾إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ﴿18﴾ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿19﴾ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿20﴾ ثُمَّ نَظَرَ ﴿21﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ﴿22﴾ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ ﴿23﴾ فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ﴿24﴾ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿25﴾ سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ﴿26﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ﴿27﴾ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ ﴿28﴾ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ ﴿29﴾ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ )) [المدثر:11-30]
’’آپ مجھے اور اس آدمی کو چھوڑدیجیے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے، اور میں نے اسے کافی مال دیا ہے، اور لڑکے دیے ہیں جو ہر وقت اس کے پاس موجود رہتے ہیں، اور میں نے اس کے لیے سیادت کی راہ ہموار کردی ہے ،پھر وہ لالچ کرتا ہے کہ میں اُسے زیادہ دوں، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، وہ تو ہماری آیتوں کا مخالف ہے، میں عنقریب اسے ایک بڑی چڑھائی چڑھاؤں گا، اس نے غور کیا اور ایک بات (دل میں) طے کرلی، پس وہ ہلاک ہو، اس نے کیسی بات سوچی، وہ پھر ہلاک ہو، اس نے کیسی بات سوچی،پھر اُس نے دیکھا ، پھر اس نے پیشانی سکیڑی اور بُرا سا منہ بنایا، پھر اُس نے پیٹھ پھیر لی اور تکبر کیا،پھر کہنے لگا، یہ محض ایک جادو ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے، یہ محض کسی انسان کا قول ہے ۔ میں عنقریب اسے جہنم میں ڈال دوں گا، اور آپ کو کیا معلوم کہ جہنم کیا ہے، نہ وہ کسی چیز کو باقی رکھے گی نہ چھوڑے گی، وہ تو کھال کو جلا ڈالنے والی ہوگی، اس پر انیس فرشتے مقرر ہیں۔‘‘ [1]
اسی ابوجہل نے عُتبہ بن ربیعہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تھا ، تاکہ آپؐ سے دعوت الی اللہ کا کام چھوڑ دینے کے سلسلے میں مفاہمت کرے، اس موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے سورۂ {حٰم تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم} کی تلاوت کرتے ہوئے:{أَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ} [المدثر:11-30]… ’’اگر پھر بھی (اہلِ مکہ) آپ کی دعوت سے منہ پھیرتے ہیں، تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تمہیں عاد وثمود کے عذاب کے مانند ایک عذاب سے ڈرادیا ہے ۔‘‘ تک پہنچے تو عُتبہ نے آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور رحمن کا واسطہ دے کر خاموش ہوجانے کی درخواست کی ، اور بہت دیر تک اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر نہیں گیا، تو ابوجہل نے اس سے کہا: اے عُتبہ اللہ کی قسم! ہم تو سمجھے کہ تم بے دین ہوگئے، اور پھر اسے اور دیگر رؤسائے قریش کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برانگیختہ کرنے لگا۔ [2]
|