ایامِ تشریق کے تیسرے دن (منگل کے دن) جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے واپس چل پڑے، اور مقامِ محصب میں (جسے اَبطح بھی کہتے ہیں) رُک گئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپؐ کے آزاد کردہ غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ نے ایک خیمہ لگا رکھا تھا۔ [1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مُحصّب میں تھے تو عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کہا: اپنی بہن عائشہ کو حرم کے باہر لے جاؤ تاکہ وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مسجدِ حرام آئے اور بیت اللہ کا طواف کرے۔ میں تم دونوں کا یہاں انتظار کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آرام کرتے رہے یہاں تک کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اپنے عمرہ سے فارغ ہو کر آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو روانگی کا حکم دیا، اور کہا کہ کوئی بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے واپس نہ ہوجائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اُس حائضہ عورت کو اِس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا جس نے قربانی کے دن طواف افاضہ کر لیا تھا۔[2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح سویرے مکہ میں داخل ہوئے، طواف وِداع کیا، اور اس میں تیز نہیں چلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفیہ رضی اللہ عنھا نے بتایا کہ انہیں ماہواری آگئی ہے، تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کہا: کیا اس کی وجہ سے ہمیں رُکنا پڑے گا۔ لوگوں نے آپ کو بتایا کہ انہوں نے طوافِ افاضہ کر لیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اُسے چلنے کی اجازت ہے (یعنی بغیر طواف وِداع کیے۔) [3]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں رات گزاری، اور جب آپ کی نظر مدینہ منورہ پر پڑی تو تین بار اللہ اکبر کہا، اور مندرجہ ذیل دعا پڑھی: (( لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ، لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ۔))اور فرمایا: اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندہ کی نُصرت فرمائی، اور تنہا تمام دشمنوں کو شکست دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیس یا تئیس ذی الحجہ کو مدینہ منورہ واپس پہنچ گئے۔ [4]
****
|