Maktaba Wahhabi

365 - 704
رہا، جب اسے سردارانِ قریش کے قتل اور اکثر کے پابندِ سلاسل کیے جانے کی خبر ملی تو غصہ سے لوٹ پوٹ کھانے لگا، اور شدید غمگین ہوا، اس نے غزوۂ بدر سے صرف ایک ماہ پہلے بطور نفاق اپنے اسلام کا اعلان کردیاتھا، جب اسے مسلمانوں کی فتح و نصرت کی خبر ملی تو اس نے کہا: کیا یہ بات صحیح ہے ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اُن تمام لوگوں کو قتل کردیا، جن کے نام زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ( رضی اللہ عنہما) نے بتائے ہیں، یہ لوگ تو سردارانِ عرب اور شاہانِ سرزمین تھے، اللہ کی قسم! اگر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان لوگوں کو قتل کردیا ہے تو پھر ہمارے لیے زمین کا باطن اس کے ظاہر سے بہتر ہے۔ جب کعب نے خبر کی تصدیق کرلی اور اپنی آنکھوں سے قیدیوں کو دیکھ لیا، تو اپنے دل میں شر چھپائے مکہ گیا، اور مشرکینِ مکہ کے ذہنوں کو کینہ اور نفرت کے زہر سے مسموم کرنے لگا، اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے انہیں آمادہ کرنے لگا، پھر مدینہ واپس آگیا، تاکہ قریش کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کے مطابق عمل کرے، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو گالیاں دینے لگا، جھوٹی خبریں پھیلانے لگا، اور مسلمان عورتوں کے ساتھ تغزل اور اُن کا بُرے الفاظ کے ساتھ ذکر کرنے لگا، اور اپنی سرکشی اور بے ادبی میں حد سے آگے بڑھ گیا، اور کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت اسے ان حرکتوں سے باز نہ رکھ سکی، حالانکہ اس سے پہلے اس نے اپنی قوم بنی نضیر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہیں کرے گا، اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا، جس طرح ایک حلیف اپنے حلیف کے ساتھ کرتا ہے، لیکن خبیث نے عہد توڑ دیا تھا اور شرانگیزی شروع کردی تھی۔ ان تمام غلط کارروائیوں، بدسلوکیوں، اور مسلمان عورتوں کے لیے بُرے الفاظ کا استعمال سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہ رہا کہ اس منحوس اور بدتمیز آواز کو خاموش کردیا جائے اور اِس سے نجات حاصل کرلی جائے، قبل اس کے کہ یہ فتنہ مزید سر اُٹھائے اور دوسرے منافقین کی ہمت بڑھے جو شب وروز مسلمانوں کی شکست اور ناکامی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن اشرف کا خون مباح کردیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے کہا: کو ن ہے جو کعب بن اشرف کا کام تمام کردے، اس لیے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ یہ سن کرمحمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصحیح میں ذکر کیا ہے [1] اور کہا: یا رسول اللہ ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ابن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے دیجیے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس آئے، اور کہا: یہ آدمی ہم سے ہمیشہ صدقہ مانگتا رہتا ہے، اور اس نے ہمیں پریشان کرڈالا ہے، اور میں تمہارے پاس کچھ قرض کے لیے آیا ہوں، کعب نے کہا: ہاں تم لوگ یقینا اس سے تنگ اورعاجز آجاؤگے، ابن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے تو اب اس کی پیروی کرلی ہے، اب ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، یہاں تک کہ دیکھ لیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اور ہم اس لیے آئے ہیں کہ تم ہمیں قرض دو، اس نے کہا: ہاں، لیکن میرے پاس کچھ رہن رکھو، میں نے کہا: کیا چیز چاہتے ہو؟ اس نے کہا: تم اپنی
Flag Counter