Maktaba Wahhabi

323 - 704
جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں شہرِ حرام میں جنگ کی اجازت نہیں دی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سازو سامان اور دونوں قیدیوں کے سلسلے میں توقف کیا، اور اس میں سے کچھ لینے سے انکار کردیا، تو ان مجاہدین کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے، اور انہیں گمان ہوا کہ وہ ہلاک ہوگئے، اور اہلِ قریش کہنے لگے: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں نے شہرِ حرام کو حلال بنالیا، اور اس میں خون بہانے کومباح کرلیا، انہوں نے ماہِ حرام میں ہمارا مال لوٹ لیا، اور ہمارے لوگوں کو قیدی بنالیا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: ((يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ)) [البقرہ: 217] ’’ لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں قتال کرنا کیسا ہے، آپ کہہ دیجیے کہ اس میں قتال کرنا بڑا گناہ ہے، اور اللہ کی راہ سے (لوگوں کو) روکنا ہے، اور اس کا انکار کرنا ہے، اور مسجد حرام سے روکنا اور مسجدِ حرام والوں کووہاں سے نکال باہر کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے، اور (اہلِ توحید کو ان کے دین وعقیدہ کے بارے میں) آزمائش میں ڈالنا قتل سے بڑا گناہ ہے، اور (اے مسلمانو!) اہلِ کفر تم سے جنگ کرتے رہیں گے، حتیٰ کہ اگر ان کی استطاعت میں ہو تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں گے۔ ‘‘ یعنی اے مومنو! اگرتم لوگوں نے شہر حرام میں ان کا ایک آدمی قتل کردیا ہے تو انہوں نے تمہیں اللہ کے راستے سے روکا ہے، اور اللہ کا انکار کیا ہے، اور مسجدِ حرام سے روکا ہے، اور وہاں سے تمہیں اور تمہارے اہل وعیال کو نکال دیا ہے، اور یہ سب جرائم اللہ کے نزدیک ان میں سے ایک کے تمہارے ذریعہ قتل کیے جانے سے کہیں زیادہ بڑے ہیں، اور مسلمانوں کو آزمائش میں ڈالنا تو قتل سے زیادہ بڑا ظلم ہے، یعنی وہ لوگ مسلمانوں کو ان کے دین کے سلسلے میں ابتلاء وآزمائش میں ڈالتے رہے ہیں، تاکہ انہیں ایمان کے بعد دوبارہ کفر کی طرف لوٹا دیں، اور یہ جرم اللہ کے نزدیک قتل سے زیادہ بڑا ہے۔ جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ نے مسلمانوں کے دل ودماغ سے اللہ کی ناراضی کا خوف نکال دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشی قافلہ کا ساز وسامان اور دونوں قیدیوں کو رکھ لیا اور قریش نے جب ان دونوں کے بدلے فدیہ دینا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ ہمارے دونوں ساتھی واپس آجائیں۔ ہم ان کے بارے میں تم سے ڈرتے ہیں، اگر تم انہیں قتل کردوگے، تو ہم تمہارے دونوں آدمیوں کو قتل کردیں گے، پھر سعد رضی اللہ عنہ اور عتبہ رضی اللہ عنہ واپس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قیدیوں کے بدلے فدیہ قبول کرلیا، اس کے بعد حَکَم اسلام لے آئے اور اپنے اسلام پر ثابت قدم رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے لگے یہاں تک کہ بئر معونہ کے دن شہید ہوگئے، البتہ عثمان مکہ چلاگیا او روہاں حالتِ کفر میں مرگیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: جب عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا غم نزولِ قرآن کے بعد زائل ہوا تو اللہ سے اجر کا لالچ کرنے لگے، اور کہا: یا رسول اللہ ! کیا ہم اس بات کی توقع رکھیں کہ ہمیں اس غزوہ کے بدلے مجاہدین کا اجر ملے گا، تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
Flag Counter