سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ یہ شخص اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد تائب ہوگیا اور اپنی توبہ میں مخلص ثابت ہوا۔ اسی لیے اس کے بارے میں صدقِ اسلام اور خیر وصلاح کی خبریں ملتی ہیں۔
(3) اور جلاس کا بھائی حارث بن سوید: اسی نے مجذر بن زیاد بَلَوی اور قیس بن زید (جو بنی ربیعہ کا تھا) کو غزوۂ اُحُد کے دن قتل کردیا تھا۔ یہ منافق شخص مسلمانوں کے ساتھ گیا تھا اور جب لوگ جنگ کرنے لگے تو موقع پاکر ان دونوں کو قتل کردیا، اور اہلِ قریش سے جاملا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو اسی کے بارے میں حکم دیا تھا کہ وہ جہاں ملے اسے قتل کردیا جائے۔ بعد میں اس حارث نے اپنے بھائی جلاس کو خبر بھیجا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی توبہ قبول کرلینے کی درخواست کرے، تاکہ وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ آئے تواللہ تعالیٰ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نازل فرمایا:
((كَيْفَ يَهْدِي اللَّـهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ)) [آل عمران: 86]
’’اللہ تعالیٰ کیسے ہدایت دے گا ایسے لوگوں کو جو ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر ہوگئے، اور اپنی اس گواہی کے بعد کہ رسو ل برحق ہے، اور اُن کے پاس کھلی نشانیاں آجانے کے بعد، اور اللہ تعالیٰ ظالم قوموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ‘‘
(4) اور انہی منافقین میں سے بجاد بن عثمان بن عامر تھا۔ (5) اور نبتل بن حارث: جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو شخص شیطان کو دیکھنا چاہتا ہے، اِسے دیکھ لے۔ یہ شخص بھاری بھرکم جسم والا، کالا کلوٹا، سرکے بال بکھرے ہوئے، سرخ آنکھوں والا، اور سرخ وسیاہ گالوں والا تھا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر منافقین کو بتایا کرتا تھا۔ اِسی نے کہا تھا،کہ محمد کان کا کچا ہے، جب بھی کوئی بات سنتا ہے تو اسے مان لیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں نازل فرمایا:
((وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّـهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)) [التوبہ: 61]
’’ اور ان منافقین میں بعض ایسے ہیں جو نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کان کا ہلکا ہے (ہر ایک کی سُن لیتا ہے) آپ کہیے کہ وہ تمہارے لیے خیر کی باتیں سنتا ہے، اللہ پر یقین رکھتا ہے، اور مومنوں کی باتوں پر بھروسہ کرتا ہے، اور تم میں سے ایمان والوں کے لیے وہ سراپا رحمت ہے، اورجو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ‘‘
(6) اور ابو حبیبہ بن الأزعریہ: ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے مسجد ضرار بنائی تھی۔ (7) اور ثعلبہ بن حاطب، (8) اور معتب بن قشیر: ان دونوں نے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے نوازا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے، پھر اپنے عہد سے مُکر گئے، اور اسی معتب نے جنگِ اُحُد کے دن کہا تھا: اگر ہماری کوئی بات سُنی جاتی تو یہاں قتل نہیں کیے جاتے، اور اسی نے غزوۂ احزاب کے دن کہا تھا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم سے وعدہ کرتا تھا کہ ہمیں کسریٰ اور قیصر کے خزانے ملیں گے، اور آج حال یہ ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی اگر باہر جاتے ہیں تو ہماری جان محفوظ نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
|