Maktaba Wahhabi

284 - 704
بیٹھی تھی بنی نجار کے دو یتیم لڑکوں کی کھجور خشک کرنے کی جگہ تھی، اور کچھ مسلمان وہاں نماز بھی پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لڑکوں کو بلاکر ان سے اس کی قیمت معلوم کی،تاکہ آپ اس جگہ مسجد بنائیں، انہوں نے کہا: نہیں ، ہم تو اسے آپ کو اے اللہ کے رسول! ہبہ کردیں گے، چنانچہ انہوں نے وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں مسجد بنانا شروع کر دی، آپ اور آپ کے اصحاب کچّی اینٹیں ڈھوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے جاتے تھے: ہٰذَا الْحِمَالُ لَحِمَالُ خیْرٍ ھذَا اَ بَرُّ رَبَّنَا وَأَطْہَرُ ’’یہ بوجھ ہر طرح سے بھلائی کا بوجھ ہے ، اے ہمارے رب! یہ سب سے زیادہ پاکیزہ اور نیک کام ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہتے تھے : اَللّٰہُمَّ) اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْآخِرَۃِ فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَۃَ ’’اے اللہ ! اصل اجر تو آخرت کا اجر ہے ، تو انصار اور مہاجرین پر رحم کردے۔‘‘[1] امام بخاری ومسلم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں نماز کا وقت آجاتا وہیں نماز ادا کرلیتے۔ اور بکری کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔پھر آپؐ کومسجد بنانے کا حکم دیا گیا تو آپؐ نے بنی نجار والوں کو بلا بھیجا، اور کہا: اے بنی نجار کے لوگو! تم لوگ یہ باغ میرے ہاتھ قیمت لے کر بیچ دو، انہوں نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! ہم صرف اللہ سے اس کی قیمت مانگتے ہیں ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس جگہ مشرکین کی قبریں ، اور کوڑا کرکٹ جمع کرنے کی جگہ تھی، اور اس میں کھجور کے درخت بھی تھے، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مشرکین کی قبروں کو کھوددینے اور خرابہ کو برابر کردینے اور کھجور کے درختوں کو کاٹ دینے کا حکم دیا۔کھجوروں کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے قبلہ کی طرف رکھ دیا، اور اس کی طول کو قبلہ سے لے کر پیچھے تک رکھ دیا، جس کی لمبائی سوگز تھی، اسی طرح سے اس کے دونوں طرف سے یا پیچھے سے بھی بنایا، اور اس کی بنیاد تقریباً تین گز گہری کھودی، پھر اس پر کچّی اینٹوں سے مسجدبنانا شروع کردیا، اور اس کی چوکھٹ کے نیچے پتھر رکھ دیئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پتھر ڈھوتے وقت مندرجہ ذیل شعر گنگناتے تھے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ہوتے تھے: اَللّٰہُمَّ اِنَّہُ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُ الْآخِرَۃِ فَاغْفِرْ لِلْاَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَۃِ ’’اے اللہ! آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں ہے، اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرمادے۔‘‘ صحابہ نے مسجد کا قبلہ بیت المقدس کی طرف رکھا، اور اس کے تین دروازے بنائے، ایک پیچھے کی طرف سے ، دوسرا باب الرحمہ اور تیسرا وہ دروازہ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوتے تھے۔ مسجد سے متصل ہی اسی طرح کچی اینٹوں سے آپؐ کی بیگمات کے گھر بنائے گئے جن کی چھت کھجور کے پتوں اور اس کے تنوں سے بنائی گئی، اس سے فارغ ہونے کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو رخصت کرکے اس گھر میں لے آئے جسے آپؐ نے ان کے لیے مسجد کے مشرقی جانب بنایا تھا، اور آج تک وہی ان کے حجرہ کی جگہ ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا کے لیے ایک دوسرا گھر بنایا۔ [2]
Flag Counter