اور اس کی تکذیب کی ہے ، اور تم اسے پناہ دینا چاہتے اور اس کی مدد کرنا چاہتے ہو، تمہاری یہ رائے بہت ہی بُری ہے۔
پھر وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوا اور کہا: اُٹھو! اپنی قوم کے پاس جاؤ، اللہ کی قسم! اگر تم میری قوم کے پاس نہ ہوتے تو میں تمہاری گردن اُڑا دیتا، یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کے پاس آئے ، اور اس پر سوار ہوکر جانے لگے ، تو خبیث بیحرہ نے اس کے پہلو میں لکڑی لگاکر اسے بِد کا دیا۔ اونٹنی تیزی کے ساتھ اُچھل پڑی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر گر پڑے۔
اُنہی دنوں ضُباعہ بنت عامر بن فرط نام کی ایک عورت بنی عامر کے پاس آئی تھی، یہ مکہ میں دیگر عورتوں کے ساتھ ابتدا ہی میں اسلام میں داخل ہوگئی تھی۔ اور اپنے چچا زادوں سے ملنے کے لیے ان کے پاس آئی تھی، اس نے کہا: اے آلِ عامر ! تمہارا ستیاناس ہو، تمہارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا کچھ کیا جارہا ہے ، اور تم میں سے کوئی ان کی حمایت نہیں کررہا ہے، چنانچہ اس کے چچا زادوں میں سے تین جوانوں نے بیحرہ کو پکڑلیا، اور اسے زمین پر دے مارا، پھر ان میں سے ایک اس کے سینے پر بیٹھ گیا، پھر تینوں نے مل کر اس کے چہرے پر خوب طمانچے لگائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے اللہ!توان کی زندگی میں برکت دے، اور بیحرہ اور اس کے لوگوں کو اپنی رحمت سے دور کردے، چنانچہ وہ تینوں اشخاص جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ، اسلام لے آئے، اور شہادت کی موت پائی، وہ تینوں سہل کے دو بیٹے غطیف اور غطفان اور عروہ یا عذرہ بن عبداللہ بن سلمہ رضی اللہ عنھم تھے، اور جن پر رسول اللہ نے لعنت بھیجی تھی وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ ان کے نام یہ ہیں : بیحرہ، حزن بن عبداللہ بن سلمہ بن قشیر اور معاویہ بن عبادہ بنی عقل کا ایک فرد۔
6- آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکر بن وائل کے پاس گئے اور ان سے پوچھا: تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم قبیلۂ بکر بن وائل کے بنی قیس بن ثعلبہ سے تعلق رکھتے ہیں ، آپؐ نے پوچھا: تمہاری تعداد کتنی ہے؟ انہو ں نے کہا: بہت زیادہ، مٹی کے ذروں کی مانند۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہاری قوت ِ دفاع کیسی ہے؟ انہوں نے کہا: ہم کسی کی پناہ میں زندگی نہیں گزارتے ہیں، ہمارے پڑوسی فارس والے ہیں، جن سے ہمیں کوئی شکایت نہیں، اور نہ ہم ان کے مخالفین کو پناہ دیتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ مجھ سے یہ وعدہ کروگے کہ اگر اللہ نے تمہیں باقی رکھا، یہاں تک کہ تم فارس والوں کے گھروں پر قبضہ کرلو، ان کی عورتوں سے شادی کرلو، او ران کے بیٹوں کو اپنا غلام بنالو، تو تم لوگ تینتیس (33) مرتبہ سبحان اللہ کہوگے اور تیتیس (33) مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس (34) مرتبہ اللہ اکبر؟ انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: میں اللہ کا رسول ہوں ، پھر آپؐ آگے بڑھ گئے۔
7- اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی شیبان بن ثعلبہ کے پاس گئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے ، آپؐ نے ان سے بات کرنی چاہی،ان لوگوں میں مفروق بن عمرو، ہانی بن قبیصہ، مثنّٰی بن حارثہ اور نعمان بن شریک تھے ۔ مفروق رسول اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: اے قریشی جوان! تم کس بات کی دعوت دیتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر بیٹھ گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے سے آپؐ کے سر پر سایہ کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں یہ دعوت دیتا ہوں کہ تم لوگ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور یہ کہ تم لوگ مجھے اپنے پاس لے چلو، اور میری مدد کرو، تاکہ میں اللہ کے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاؤں جس کا اُس نے مجھے حکم
|