Maktaba Wahhabi

701 - 704
لیکن زینب رضی اللہ عنھا مدینہ آنے کے بعد زیادہ عرصہ تک بقید حیات نہیں رہیں، اُن تکلیفوں سے متأثر ہوکر جو انہیں سقوطِ حمل اور سیلانِ خون کے سبب لاحق ہوگئی تھیں۔ اور گزشتہ صفحات میں بتایا جا چکا ہے کہ اس تکلیف کا سبب ہبّار بن الأسود ابن عبد المطلب بنا تھا جس نے اِن کی اونٹنی کو اُس وقت بِد کا دیا تھا جب وہ مدینہ منورہ کے لیے نکل رہی تھیں، اور اونٹنی سے گِر کر اُن کاحمل ساقط ہوگیا تھا۔ اِن کی وفات سن 8 ہجری میں ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جنازہ کی نماز پڑھائی، اور بقیع غرقدمیں مدفون ہوئیں۔ 2: سیّدہ رُقیہ رضی اللہ عنھا کانکاح عتبہ بن ابو لہب سے اور امّ کلثوم رضی اللہ عنھا کا نکاح عُتیبہ بن ابو لہب سے مکہ میں ہی ہوا تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں دونوں نے اپنی کافرہ ماں امّ جمیل کے اصرار پر دونوں بہنوں کو رخصتی سے پہلے طلاق دے دی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذہنی کرب واذیت پہنچے۔ اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنھا کی شادی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کر دی، دونوں نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر مدینہ کی طرف۔ اور مجاہدینِ اسلام جنگِ بدر میں عظیم کامیابی اور فتحیابی کے بعد واپس آتے ہوئے ابھی راستہ میں تھے کہ سیّدہ رُقیہ رضی اللہ عنھا مدینہ میں وفات پاگئیں، اور بقیع میں دفن ہوئیں۔ 3: سیّدہ رُقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی سیّدہ اُمّ کلثوم رضی اللہ عنھا کی شادی ماہِ ربیع الاول سن 3 ہجری میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کر دی، عثمان رضی اللہ عنہ نے اس شادی کے بعد ذو النورین کا لقب پایا۔ اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہ اُن کے پاس چھ سال تک رہیں، اِن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اِن کی وفات مدینہ میں ہی ہوئی اور بقیع میں دفن ہوئیں۔ 4: سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ رضی اللہ عنھا کی چوتھی بیٹی تھیں۔ بعثتِ نبوی سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں اور سب سے زیادہ اپنے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفتار وگفتار وغیرہ میں مشابہ تھیں، اور اپنی بہنوں میں سب سے زیادہ اپنے والد کی محبوب تھیں۔ جب اٹھارہ سال کی ہوئیں تو سیّدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِن سے شادی کا پیغام دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی شادی مبلغ چار سو مثقال چاندی کے عوض کر دی، اور دونوں کو اُن کے گھر پہنچا دیا، اور ان کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اِن دونوں میں برکت ڈال دے، ان دونوں پر برکت نازل فرما، اور ان دونوں کی نسل میں برکت عطا فرما۔ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کو اُن کے بطن سے حسن وحسین اور زینب و اُم کلثوم( رضی اللہ عنھم اجمعین ) چار بچے دیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے کان میں پہلے اپنی وفات پھر اُن کی وفات کی خبر دی، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو بلایا اور اُن کے کان میں کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر دوبارہ اُن کے کان میں کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے کان میں کیا کہا کہ تم رونے لگی، اور دوبارہ کیا کہا کہ تم ہنسنے لگی؟ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پہلی بار انہوں نے مجھے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی، دوسری بار انہوں نے بتایا کہ میں اُن کے اہل میں پہلی ہوں گی جو اُن سے جا ملوں گی، تو میں ہنسنے لگی۔ [1]
Flag Counter