کہ اُس سے پہلے تم میں سے کسی نے یہ بات کہی تھی، تو تم نے کہا: نہیں۔ اگر کسی نے اِس جیسی بات کہی ہوتی، تو میں کہتا: وہ وہی بات کہہ رہا ہے جو اس سے پہلے کہی گئی ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا دعوی نبوت سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹا کہتے رہے ہو، تو تم نے کہا: نہیں۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ جو آدمی لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتا ہے ؟ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اُس کے آباء میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہے، تم نے کہا: نہیں۔ میں نے سوچا اگر اس کے آباء واجداد میں کوئی بادشاہ ہوا ہوتا، تو کہتا کہ وہ اپنے باپ دادوں کی بادشاہت کو واپس لینا چاہتا ہے۔
میں نے تم سے پوچھا: اس کی اتباع شرفائے قوم کرتے ہیں یا کمزور لوگ۔ تو تم نے کہا: کمزور لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں، اوررسولوں کے پیروکار کمزور لوگ ہی ہوتے ہیں، اور میں نے پوچھا: وہ زیادہ ہورہے ہیں یا کم، تو تم نے کہا: ان کی تعداد بڑھ رہی ہے، اور ایمان کا حال ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ پورا ہوجاتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اُن میں کا کوئی اپنے دین سے بیزار ہوکر اسے چھوڑ بھی دیتا ہے۔ تو تم نے کہا: نہیں۔ اور ایمان کا حال ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، جب اُس کی بشاشت وفرحت دلوں میں سرایت کرجاتی ہے تو ایساآدمی کبھی اُس سے بیزار نہیں ہوتا۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا وہ دھوکہ دیتا ہے۔ تو تم نے کہا: نہیں۔ اور اسی طرح اللہ کے رسول دھوکہ نہیں دیتے۔
میں نے تم سے پوچھا: کیا تم لوگوں نے اس سے قتال کیا، اور اس نے تم لوگوں سے قتال کیا، تو تم نے کہا: ہاں، ایسا ہوا ہے، اور کبھی تم غالب آتے ہو اور کبھی وہ۔ اور انبیائے کرام اسی طرح آزمائے جاتے ہیں، اور انجام کار غلبہ انہی کو حاصل ہوتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے۔ تو تم نے کہا: وہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، اور تمہیں ان معبودوں سے روکتا ہے جن کی تمہارے باپ دادا عبادت کرتے تھے۔ اور وہ تمہیں نماز، صدقہ، پاکدامنی، ایفائے عہد اور ادائے امانت کا حکم دیتا ہے۔ قیصر نے کہا: اور نبی کی یہی صفت ہوتی ہے۔ اور میں جانتا تھا کہ وہ نبی ظاہر ہونے والا ہے، لیکن یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اور تم نے جو کچھ کہا ہے اگر صحیح ہے، تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک بن جائے گا۔ اور اگر مجھے امید ہوتی کہ میں اس کے پاس پہنچ جاؤں گا تو اس سے ملنے کی ہرممکن کوشش کرتا، اور اگر میں اُس کے پاس ہوتا تو اُس کے دونوں پاؤں دھوتا۔
ابوسفیان کا بیان ہے: قیصر نے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا، جو اسے پڑھ کر سنایا گیا، جب قیصر نے اپنی بات ختم کی تو عظمائے روم جو اس کے گرد جمع تھے اونچی آوازوں میں باتیں کرنے لگے اور شور وشغب ہونے لگا، اور کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے، اورہم وہاں سے نکال دیے گئے۔ ابو سفیان کہتے ہیں: جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل کر باہر آیا تو میں نے اُن سے کہا: ابن ابی کبشہ (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت آگے جاچکا ہے۔ دیکھو، بنی اصفر (یعنی اہلِ روم) کا بادشاہ اس سے خوف کھارہا ہے۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اس کے بعد میں ذلیل وخوار ہوکر اس یقین کے ساتھ زندگی گزارتا رہا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) غالب ہوکر رہیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے میرے دل میں، نہ چاہتے ہوئے
|