اس طرح ان لوگوں نے اپنے امیرکی بات نہیں مانی اور سمجھ بیٹھے کہ اب مشرکین واپس نہیں آئیں گے، چنانچہ وہ سب مالِ غنیمت کے لیے دوڑ پڑے، اور گھاٹی کو خالی کردیا، اس طرح مسلمانوں کی پشت غیر محفوظ ہوگئی اور مشرکوں کے گھوڑ سوار اس راستے سے اندر داخل ہوگئے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اور مسلمانوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ کر حملہ کرنا شروع کردیا، اور مشرکوں کے گھوڑ سواروں نے مسلمان تیر اندازوں کے قائد عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کو قتل کردیا۔
پھر ان کی مڈبھیڑ دیگر مسلمان مجاہدین سے ہوئی جنہوں نے دشمنوں سے جنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، لیکن دشمنوں کے اس اچانک حملے سے ایسا گھبرا گئے کہ انہیں سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب وہ کیا کریں، اور اسی حال میں بغیر سوچے سمجھے جنگ کرنے لگے، اور مسلمانوں اور کافروں میں تمیز کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا، اور مسلمان مجاہدین میدانِ کارزار میں قتل کیے جانے لگے، ان حالات کے سبب مسلمانوں کا اتصال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ختم ہوگیا اوریہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیے گئے، یہ خبر پھیلتے ہی مسلمانوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور بہت سے مجاہدین گھبرا کر میدانِ جنگ سے بھاگ پڑے، اور ان میں سے بعض میدان سے الگ ہوکر بیٹھ گئے اور جنگ کرنا چھوڑدیا۔
مسلمانوں کے ساتھ اس جنگ میں جو کچھ ہوا اس سے بے شک انہیں بہت ہی اہم سبق ملتا ہے جو انہیں قیامت تک دو اہم باتوں کی یاد دلاتا رہے گا، جنہیں انہوں نے غزوۂ احد میں فراموش کردیا تھا، اسی لیے ان کو شکست وقتل اور دیگر تمام پریشانیوں میں مبتلا ہونا پڑا، اور جب تک مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ان دونوں باتوں کی پابندی نہیں کریں گے، ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے، وہ دونوں باتیں مندرجہ ذیل ہیں:
1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، ان کے ہر امر اور نہی میں۔ آپ نے تیر اندازوں سے کہا تھا کہ اگرتم ہمیں کافروں پر غالب ہوتے بھی دیکھ لو تو اپنی جگہ نہ چھوڑو، اور اگر دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آگئے تب بھی تم اپنی جگہ نہ چھوڑو، لیکن انہوں نے آپ کے حکم کی نافرمانی کی اور گھاٹی سے نیچے اُتر آئے، جس کا انجام شکست کی صورت میں ظاہر ہوا۔
2- تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور صدق نیت، اور یہ کہ بندے کا کوئی کام دنیاوی اغراض ومنافع کے لیے نہ ہو، اس لیے کہ بسا اوقات دنیاوی منافع کے حصول کی نیت امتِ اسلامیہ کے لیے بڑی بڑی مصیبتیں لاتی ہے۔ تیر اندازوں نے مالِ غنیمت کی لالچ کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو فراموش کرکے پہاڑ سے نیچے اُتر گئے اور گھاٹی کا راستہ خالد کے گھوڑ سواروں کے لیے کھلا چھوڑ دیا، جس کے سبب کافروں کی فوج نے اسلامی فوج پر پیچھے سے حملہ کردیا، جس کا انجام وہ کچھ ہوا جو ہم نے ابھی جانا، اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ آلِ عمران میں نازل فرمایا:
((بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ))
[آلِ عمران: 125]
’’ ہاں، اگر تم لوگ صبر کروگے، اور اللہ سے ڈروگے، اور تمہارے دشمن جوش میں آکر تم تک آجائیں گے، تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان لگے ہوئے فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا۔ ‘‘
|