ادا کرے گا، میں پھر دوبارہ کھڑا ہوا، اور کہا: اے اللہ کے رسول ! میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے رُخ پھیر لیا، اور تیسری بار کہا: کون اس تلوار کو مجھ سے اس شرط کے ساتھ لے گا کہ وہ اس کا حق ادا کرے گا، تو ابو دجانہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اسے میں لوں گا، آپ کی شرط کے ساتھ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کے ذریعہ کسی مسلمان کو قتل نہیں کروگے، اور کسی کافر کو اس سے نہیں بچاؤگے۔زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ نے وہ تلوار ان کو دے دی۔ اور ابو دجانہ رضی اللہ عنہ جب جنگ کرنا چاہتے تو اپنے سر پر ایک پٹی باندھ لیتے تھے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے سوچا آج ان کو دیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟ راوی پھر کہتے ہیں: چنانچہ کوئی بھی چیز ان کے سامنے نہیں آتی تھی، لیکن اسے وہ پھاڑاور کاٹ دیتے تھے، یہاں تک کہ وہ لڑتے لڑتے پہاڑ کے دامن میں کچھ عورتوں تک پہنچ گئے جن کے پاس دف تھی، انہوں نے اپنی تلوار سے ایک عورت کو مارنا چاہا، پھر رُک گئے، جب جنگ رُک گئی تو میں نے اُن سے کہا: آپ کا ہر کام آج مجھے اچھا لگا، سوائے عورت پر تلوار اٹھانے کے، پھر آپ نے اسے نہیں مارا، تو ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کی عزت کرتے ہوئے اس سے عورت کو قتل نہیں کیا۔ [1]
مشرکوں کے جھنڈے کے اِرد گرد گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی، اور بنو عبدالدار کا کمانڈر طلحہ بن ابو طلحہ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل کیا جاچکا تھا، اس کے بعد ابو شیبہ عثمان بن طلحہ جھنڈا اُٹھائے ہوئے تھا، جس پر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حملہ کرکے اسے قتل کردیا، اس کے بعد ابو سعد بن ابی طلحہ نے جھنڈا اُٹھالیا، اسے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تیر چلاکر قتل کردیا، اس کے بعد مسافح بن طلحہ بن ابی طلحہ نے جھنڈا اُٹھالیا، جسے عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے قتل کردیا، اس کے بعد اس کے بھائی کلاب بن طلحہ نے جھنڈا اُٹھالیا، جسے قزمان نے قتل کردیا، اس کے بعد حارث بن ابی طلحہ نے جھنڈا اُٹھالیا، اُسے بھی قزمان نے قتل کردیا، اس کے بعد ابو زید بن عمیر بن ہشام بن عبدمناف نے جھنڈااُٹھالیا، اسے بھی قزمان نے قتل کردیا، اس کے بعد قاسط بن شریح بن ہشام بن عبدمناف نے جھنڈا اُٹھالیا، قزمان نے اسے بھی قتل کردیا، اس کے بعد صُؤاب نامی حبشی غلام نے جھنڈا اُٹھالیا، کافروں نے اس سے کہا: ہماری شکست تمہاری وجہ سے ہوگی، اس کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے جھنڈا تھام لیا، اس کا بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو وہ جھنڈے کی لکڑی سے چمٹ گیا اور کہا: کیا میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی، کافروں نے کہا: ہاں ،پھر اسے قزمان [2]نے قتل کردیا، اور جھنڈا گرگیا اور مشرکین بکھر گئے۔[3]
اس کے بعد کافروں کے اس جھنڈے کو عمرہ بنت علقمہ الحارثیہ نے سنبھال لیا، اور مشرکین دوبارہ میدانِ کارزار کی طرف لوٹ پڑے، کافروں کے جھنڈے اور اس کے یکے بعد دیگرے اٹھانے والوں کا جو انجام ہوا اس نے یقینا قریشیوں کی
|