ومتاع تمہارے قبضے میں کردے، اور ان کی بیٹیوں کو تمہارے حوالے کردے، توتم سبحان اللہ کا وِرد کروگے اور اللہ کی پاکی بیان کروگے؟ نعمان بن شریک نے کہا: اے قریشی! اس کا ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :
((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿45﴾ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا)) [الأحزاب:45،46]
’’اے میرے نبی! ہم نے آپ کو گواہ بناکر اور جنت کی خوشخبری دینے والا اور جہنم سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے، اور اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کو اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے اُٹھ کر آگے بڑھ گئے۔
8- حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واقدی نے ہر اس قبیلے کا نام ذکر کیا ہے ، جن کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی دعوت لے کر گئے ۔ آپ مندرجہ ذیل قبائل کے پاس گئے:
بنی عامر، غسان، بنی فزارہ ، بنی مرہ، بنی حنیفہ، بنی سلیم، بنی عبس، بنی نضربن ہوازن، بنی ثعلبہ بن عکابہ،کندہ،کلب، بنی حارث بن کعب، بنی عذرہ، قیس بن حطیم وغیرھم۔ اور ان کو اسلام کی دعوت دی۔
9- اور قبیلۂ ہمدان کا ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم کس قبیلہ کے ہو؟ اس نے کہا: قبیلۂ ہمدان کا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا تمہاری قوم پناہ دینے کی طاقت رکھتی ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ، پھر وہ آدمی ڈر گیا کہ کہیں اس کی قوم اس سے ناراض نہ ہوجائے، اس لیے وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہا: میں پہلے ان کے پاس جاکر انہیں تمہارے بارے میں بتاتا ہوں ، پھر تمہارے پاس آئندہ سال آؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے ، پھر وہ آدمی چلاگیا اوراسی سال ماہِ رجب میں انصار کا وفد آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سالوں میں ہر موسمِ حج میں اپنے آپ کو قبائل کے سامنے پیش کرتے اور ہر سردارِقوم سے بات کرتے، اور ان سے صرف یہی سوال کرتے کہ وہ آپ کو پناہ دیں، اور آپ کا دفاع کریں۔ اور آپ یہ بھی کہتے کہ میں تم میں سے کسی کو بھی کسی بات پر مجبور نہیں کرتا، جو شخص میری دعوت پسند کرتا ہے، قبول کرے، اور جو ناپسند کرتا ہے تو میں اسے مجبور نہیں کرتا، میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ قتل کیے جانے سے میرا دفاع کیا جائے، تاکہ میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاسکوں ، لیکن ان قبائل میں سے کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب منظور نہیں کی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی قبیلہ کے پاس جاتے تو وہ لوگ یہی کہتے کہ کسی آدمی کا قبیلہ اس کو زیادہ جانتا ہے ، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا آدمی ہماری اصلاح کرے، جس نے اپنی قوم کو بگاڑ دیا ہے ، اس لیے انہو ں نے اسے الگ کردیاہے ۔ زہری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ دراصل اللہ نے یہ سعادت انصار کے لیے لکھی تھی ، چنانچہ اس کے ذریعہ اللہ نے انہیں عزت بخشی۔ [1]
|