جا سکتی ہیں اس سارے علم کو علم نجوم کہتے ہیں اور اس علم کے ماہر کو نجومی کہتے ہیں ۔[1] سوال : کیا حقیقت میں کسی انسان کا کوئی برج ہے؟ جواب : نہیں ! یہ نظام خود ان کے ہاں باطل ثابت ہو چکا ہے کسی آدمی کا کوئی برج نہیں آئیے اس حقیقت کو ہم تین ادلہ سے واشگاف کرتے ہیں : (۱)… ہر برج کی جو نجومیوں نے تاریخیں طے کر رکھی ہیں ، مثلاً برج حمل کی 21 مارچ تا 19 اپریل، ثور 20 اپریل تا 21 مئی، جوزا 22 مئی تا 22 جون ایسے ہی آخر تک یہ سب باطل ہو چکی ہیں ۔ یہ تاریخیں آج سے 1200 سال پہلے بطلیموس جو کہ اسکندریہ کا مشہور سائنسدان تھا اس نے ترتیب دی تھیں جبکہ ہر ستر سال بعد ستاروں کے مقام میں تقریباً ایک ڈگری یا ایک دن کا فرق آجاتا ہے ستاروں کے مقام میں یہ تبدیلی ان کی سست روی یا الٹی چال کی وجہ سے ہوتی ہے جس کو فلکیات کی زبان میں (Precession of the equinoxes) کہتے ہیں ۔ اس طرح ہر شخص کے برج کی تاریخوں میں 27 دن کا فرق پڑ چکا ہے اور ان کے برج وہ ہیں ہی نہیں جو وہ سمجھے بیٹھے ہیں اب ایک نجومی کسی شخص کے متعلق اس کے برج کی بنا پر جو پیش گوئیاں کرتا ہے وہ اس لیے بیکار ہوتی ہیں کیونکہ وہ اس کا برج ہوتا ہی نہیں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے نجومیوں کو اس حقیقت کا پتہ ہے لیکن دکانداری کی وجہ سے چپ ہیں ۔ (۲)… اگر آپ انٹرنیٹ پر اس ویب سائٹ(http:11the –red-threadnet/ophiachus2.html) پر جائیں تو آپ کو تیرھویں برج کی پوری تفصیل مل جائے گی جس کا نام افیوکس (Ophiucus) ہے۔ اس تیرہویں برج کے دریافت ہو جانے سے وہی پنڈوراباکس کھل جاتا ہے کہ برجوں کی ساری تاریخیں درہم برہم ہو جاتی ہیں اور انسان کا وہ برج رہتا ہی نہیں جسے وہ سمجھ رہا ہے۔ اور یہیں پر بس نہیں بلکہ بطلیموس جس کی تاریخوں پر یہ انحصار کیے ہوئے ہیں اس نے ستاروں کے 48 جھرمٹ بیان کیے تھے جن میں افیوکس بھی شامل تھا اس لیے ابھی وقت کے ساتھ ساتھ اور برج بھی منظر عام پر آئیں گے جس سے نجومیوں کی خواری اور بڑھ جائے گی۔ (۳)… برجوں کی بے ترتیبی: تیسری وآخری دلیل یہ ہے کہ ان نجومیوں نے آسمان کے ہر تیس ڈگری کے فاصلے جو بارہ حصے کیے ہیں وہ بھی خود ساختہ ہیں اور تصوراتی ہیں ، حقیقت پسند ماہر فلکیات نے اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے: The Zadiacal constellations are not organiged into neat pachets |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |