Maktaba Wahhabi

241 - 849
الگ نہ کر۔ غصہ میں اگر تو اس سے بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال۔[1] پھر فرمایا: اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ ہلکی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ۔ صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے خطبے میں ہے کہ عورتوں کے بارے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں ۔ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سی تنبیہ بھی تم کر سکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے اور پہناتے اوڑھاتے رہو۔[2] پس ایسی مار نہیں مارنی چاہیے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ اس سے بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو۔‘‘ ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی بندیوں کو نہ مارو۔ اس کے بعد ایک مرتبہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول! عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کر اپنے مردوں پر دلیر ہو گئیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے کی اجازت دی۔ اب مردوں کی طرف سے دھڑا دھڑ مارپیٹ شروع ہوئی اور بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا: سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی ہے۔ یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زد و کوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں ۔[3] بیوی کو مارنے کی اجازت مگر چند شرائط کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے اپنے غلام کو مارتے ہو پھر دن کے آخر میں اس سے جماع بھی کرے۔[4] یعنی اگر مارنے کے بغیر عورت کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہ ہو تو یہ سوچ کر مارے کہ ممکن ہے رات کو اسے بیوی کی ضرورت پیش آ جائے اور اسے منانا پڑے۔ دوسرے یہ کہ اسے غلاموں کی طرح
Flag Counter